عالمی خلانوردوں کے بعد ناسا نے بھی پاکستانی بچوں کو جوابات دے دیے
امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے خلا سے متعلق چوتھی جماعت کے پاکستانی طلبہ کے سوالوں کے جوابات دے دیے۔
چند روز قبل مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے عالمی خلانوردوں اور ماضی میں انٹرنیشل اسپیس اسٹیشن (عالمی خلائی اسٹیشن) پر جانے والے خلابازوں نے پاکستانی طلبہ کے سوالوں کے جوابات دیے تھے۔
خلانوردوں اور خلائی اداروں سے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے اسکول کارنر اسٹونز کے چوتھی کلاس کے طلبہ نے ٹوئٹر پر سوالات کیے تھے۔
چوتھی کلاس کے 9 سے 10 سال کی عمر کے بچوں کے سوالات ان کی خاتون ٹیچر ایمن نے 14 اکتوبر کو ٹوئٹر پر شیئر کرکے خلانوردوں اور خلائی اداروں کو ٹیگ کیے تھے۔
خاتون استاد نے اپنے طلبہ کے سوالات کو ایک خط کی صورت میں لکھ کر اس کی تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی تھی اور مذکورہ ٹوئٹ کو انہوں نے امریکی خلائی ادارے ناسا سمیت اس کے ذیلی اداروں اور ریسرچ سینٹرز سمیت خلانوردوں کو بھی ٹیگ کیا تھا۔
ساتھ ہی انہوں نے صارفین سے بھی گزارش کی تھی کہ ان کی ٹوئٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کیا جائے، تاکہ ان کے طلبہ کے جوابات انہیں مل جائیں۔
خاتون ٹیچر ایمن نے اپنے 6 طلبہ کے سوالات کو خط میں لکھ کر شیئر کیا تھا اور ساتھ ہی انہوں نے بچوں کی جانب سے خلانوردوں اور خلا سے متعلق ان کے خیالات کو بھی پیش کیا تھا۔
خاتون نے طلبہ کی جانب سے لکھا تھا کہ وہ اپنی کتابوں میں خلائی اداروں، خلائی تحقیقات اور خلائی نوردوں سے متعلق پڑھتے آ رہے ہیں اور یہ کہ وہ ان کے کارناموں سے بھی متاثر ہیں۔
ساتھ ہی خط میں لکھا گیا تھا کہ وہ ان کے کچھ سوالات ہیں، جن کے وہ خلانوردوں سے جوابات چاہتے ہیں۔
خاتون ٹیچر کی جانب سے خط کو ٹوئٹر پر شیئر کیے جانے کے بعد درجنوں افراد نے ان کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کیا اور ساتھ ہی کئی افراد نے ان کے خط میں پوچھے گئے سوالوں کے جوابات دینے کے لیے خلانوردوں، سائنسدانوں اور خلائی تحقیقاتی اداروں کو بھی مینشن کیا۔
لوگوں کی جانب سے سائنسدانوں اور اداروں کو مینشن کیے جانے کے بعد پاکستانی طلبہ کو سائنسدانوں اور خلائی نوردوں کی جانب سے ٹوئٹر پر جوابات بھی دیے گئے۔
خط میں 10 سالہ پاکستانی طالبہ علیشا نے سوال کیا تھا کہ خلا کی جانب جانے والی گاڑیوں میں کون سا ایندھن استعمال کیا جاتا ہے؟
ناسا کے لانچ سروسز پروگرام کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے علیشا کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ اسپیس شپ یا خلا کی جانے والی گاڑیاں راکٹ سے چلتی ہیں اور خلا میں اسپیس کرافٹ یا انسانوں کو لے جانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
ٹوئٹ میں کہا گیا کہ یہ ایک جیسے نظر آسکتے ہیں ، لیکن دونوں ایک جیسے نہیں ہیں کیونکہ وہ بہت پیچیدہ ہیں، راکٹس، ٹھوس، مائع یا گیس راکٹ ایندھن کی مدد سے چلتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ٹوئٹ میں خلا میں راکٹ بھیجنے کی ویڈیو بھی شیئر کی۔
ناسا کی جانب سے علیشا، مناہل، ہانیہ، ماہ رخ، انابیہ اور ریان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم بہت خوش ہیں کہ آپ نے ہم سے رابطہ کیا۔
ٹوئٹ میں اس امید کا اظہار کیا کہ ناسا ایک دن ان بچوں کو دیکھ سکے گا، اس کے ساتھ ناسا نے بچوں کے لیے ورچوئل ٹورز کا لنک بھی شیئر کیا۔
ناسا نے کہا کہ متجسس رہیں اور ستاروں تک پہنچنے کی کوشش کریں، ہمیں آپ پر یقین ہے۔
اسی طرح 10 سالہ مناہل نے سوال کیا کہ انہیں امریکی خلائی ادارے ناسا کا حصہ بننے کے لیے کس طرح کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے؟
مناہل کے سوال کا جواب ناسا اسٹیم فیلڈز کی جانب سے دیا گیا کہ خلائی ادارے کا حصہ بننے کے لیے بہت سے کیرئیرز ہیں۔
ادارے نے کہا کہ ااسٹیم فیلڈز ایک بہترین نقطہ آغاز ہیں! اپنے صلاحیتوں کو بہتر بنائیں اور حیرت انگیز کیرئیر کا آغاز کریں۔
9 سالہ انابیا نے سوال کیا کہ خلا میں اب تک کی سب سے متاثر کن دریافت کیا ہے؟
جس کا جواب آئی ایس ایس ریسرچ نے دیا اور کہا کہ ہم نے 20 برس میں بہت سی چیزیں دریافت کی ہیں۔
ٹوئٹ میں کہا گیا ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے کہ کیسے خلا میں ہمارا جسم تبدیل ہوجاتا ہے اس سے لے کر نئی ممکنہ ادویات کی تیاری پر کام کررہے ہیں۔
آئی ایس ایس ریسرچ نے کہا کہ آپ جیسے طلبہ بھی اس سائنس پر کچھ کررہے ہیں۔
اسی طرح 10 سالہ ریان نے پوچھا تھا کہ کیا خلانوردوں کو خلا میں سفر کے دوران اپنی گاڑی کے گم ہونے کا خوف رہتا ہے؟
9 سالہ ماہ رخ کا سوال تھا کہ جب کوئی خلا کی جانب سفر کرتا ہے تو اس شخص کا رد عمل کیسا ہوتا ہے؟
9 سالہ ہانیا نے سائسندانوں سے سوال کیا تھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ مشتری سیارے میں ہیروں کی بارش ہوتی رہتی ہے؟
ناسا کی جانب سے 3 بچوں کے سوالات کے جوابات دیے جاچکے ہیں اور ان کی ٹیچر نے باقی تین بچوں کو جواب دینے کی درخواست بھی کی ہے۔
علاوہ ازیں ناسا نے پاکستانی بچوں کو سراہا اور لکھا کہ نڈر متلاشیوں، مفکرین کی اگلی نسل کو متاثر کرنے میں مدد پر آپ کے شکر گزار ہیں۔
ناسا سے قبل خاتون امریکی سائنسدان ایملی کیلنڈرلی، خلانورد کرس ہیڈ فیلڈ نے طلبہ کے سوالات کے جوابات دیے تھے۔
سائنسدانوں اور خلانوردوں کی جانب سے جوابات دیے جانے کے بعد اسکول کی خاتون ٹیچر نے اگلے ہی روز اپنے طلبہ کو ان کے سوالوں کے جوابات کے پرنٹ دکھائے، جس پر طلبہ حیران رہ گئے۔
خاتون ٹیچر نے بتایا تھا کہ اگلے روز وہ طلبہ کے جوابات کے ساتھ کلاس گئیں اور انہوں نے تمام طلبہ کو ان کے جوابات والی ٹوئٹس کے پرنٹ دیے تو پوری جماعت حیران رہ گئی تھی۔
ان کے مطابق انہوں نے تمام طلبہ کے جوابات کے لیے الگ الگ خط بنائے اور ہر خط پر طالب علم کا نام لکھا اور ایک طالبہ نے ان کی رائٹنگ پہنچان لی اور انہوں نے اسے ٹوکا کہ یہ سائنسدانوں نے جوابات نہیں دیے بلکہ آپ نے خود دیے ہیں، جس پر ٹیچر نے انہیں خط کا لفافہ کھولنے کا کہا تو وہ جواب دیکھ کر حیران رہ گئیں۔
خاتون ٹیچر کی اس کوشش اور چوتھی کلاس کے طلبہ کی جانب خلائی تحقیقات سے متعلق سوالات پوچھے جانے پر پوری دنیا میں پاکستانی ننھے طالب علموں اور ان کی ٹیچر کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔
اور اب ان بچوں کی ٹیچر پیر کے روز اسکول میں بچوں کو ناسا کے جوابات بتائیں گی لیکن وہ چاہتی ہیں کہ دیگر 3 بچوں کے سوالات بھی دے دیے جائیں۔
تبصرے (1) بند ہیں