حکومت عدالتی کمیشن سے تعاون نہیں کررہی ہے، پی ٹی آئی اقلیتی رکن اسمبلی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اقلیتی رکن اسمبلی رمیش کمار وانکوانی نے سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ میں حکومت کا حصہ ہوں لیکن وفاقی حکومت عدالتی کمیشن سے تعاون نہیں کررہی ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی جہاں عدالت نے اقلیتوں کےلیے حکومتی کمیشن کی تشکیل پربرہمی کا اظہار کردیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کمیشن کی تشکیل سے متعلق استفسار کیا تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہیں بھی اس معاملے پر ابہام ہے، کمیشن وزارت مذہبی امور کے ماتحت ہے۔
مزید پڑھیں:اقلیتی حقوق کمیشن کا وزارت مذہبی امور پر عدم تعاون کا الزام
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکریٹری مذہبی امور کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں کمیشن کیسے بنا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت پہلے ایک کمیشن بنا چکی، حکومت نے نیا کمیشن کیسے بنایا، حکومت جتنے مرضی کمیشن بنائے لیکن عدالتی کمیشن کو نہیں چھیڑ سکتی۔
عدالت نے تعلیم اور مذہبی امور کے سیکریٹریز کو عملی اقدامات کی تفصیلات سمیت 23 اکتوبر کو طلب کرلیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ حکومت دوسرے کاموں کے لیے جتنے مرضی کمیشن بنائے لیکن ایک دوسرے کے راستے میں نہیں آنا چاہیے۔
عدالت نے سیکریٹری مذہبی امور کو طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا، وقفے کے بعد جوائنٹ سیکریٹری وزارت مذہبی امور عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
دوران سماعت حکومتی رکن قومی اسمبلی رمیش کمار وانکوانی نے اپنی ہی حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ وہ وفاقی حکومت کا حصہ ہیں لیکن حکومت عدالتی کمیشن سے تعاون نہیں کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزارت مذہبی امور نے ایک روپے کا کام نہیں کیا، اقلیتی کونسل کے لیے بل وزیر مذہبی امور کودیا گیا لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق نصاب اور ملازمتوں کے حوالے سے کیا اقدامات ہوئے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ اسلام آباد میں اقلیتیوں کی 108 عبادت گاہوں کو سیکیورٹی دی گئی، ملازمتوں میں اقلیتوں کے کوٹے پر بھی عمل درآمد ہورہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اقلیتوں کے حقوق سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر مایوسی کا اظہار
چیف جسٹس نے کہا کہ کاغذی کارروائی سے کچھ نہیں ہوگا، عدالتی فیصلے فائلوں میں رکھنے کے لیے نہیں ہوتے، ان فیصلوں کے فوائد عوام تک پہنچائیں گے۔
عدالت نے از خود نوٹس کیس کی سماعت 23 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کمیشن 9 جنوری 2019 کو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کی ہدایات پر سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ کی جانب سے تشکیل دیا گیا۔
اقلیتی کمیشن کا مقصد 19 جون 2014 کو سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے جانب سے ازخود نوٹس کیس کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کی نگرانی تھا جو 2013 میں پشاور کے ایک گرجا گھر میں بم دھماکے میں 100 افراد کی ہلاکت کے بعد لیا گیا تھا۔
فیصلے کے پیراگراف iv) 37) میں قومی اقلیتی کمیشن کے قیام کو ضروری قرار دیا گیا تھا جو آئین اور قانون کے تحت اقلیتوں کو فراہم کیے گئے حقوق اور تحفظ کے عملی احساس کی نگرانی کرتا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کونسل کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے پالیسی تجاوز تیار کرنے کا مینڈیٹ بھی دیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھیں: اقلیتوں کے حقوق سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر مایوسی کا اظہار
اقلتیوں کے حقوق سے متعلق ایک رکنی کمیشن نے رواں برس مئی میں سپریم کورٹ میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کونسل کے قیام سے متعلق عدالت عظمیٰ کے 2014 کے فیصلے پر عمل درآمد میں وزارت مذہبی امور کی جانب سے عدم تعاون کا الزام لگایا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 5 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ڈاکٹر شعیب سڈل نے عدالت سے وزرات مذہبی امور کے سیکریٹری سے 19 فروری 2020 کو قومی اقلیتی کمیشن کے قیام کے لیے عدالت کو دیے گئے حلف نامے کی خلاف ورزی پر وضاحت طلب کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ یہ حکم عدولی دراصل توہین عدالت ہے۔
کمیشن نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ وزارت مذہبی امور کو عدالت میں جمع کروائے گئے حلف نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جاری کیے گئے یا جاری کیے جانے والے نوٹی فکیشن کو روکنے یا اس سے دستبردار ہونے کا حکم دیا جائے۔
رپورٹ میں سیکریٹری وزارت صحت کو سپریم کورٹ کے 2014 کے فیصلے کے پیراگراف iv) 37) پر اس کی اصل روح اور کمیشن کے ساتھ بامعنی مشاورت کرکے عمل درآمد کی ہدایت جاری کرنے کی استدعا کی گئی۔