میشا شفیع کی کارروائی روکنے کی درخواست پر علی ظفر نے جواب جمع کرادیا
معروف گلوکار و اداکار علی ظفر نے گلوکارہ میشا شفیع کی جانب سے اپنے خلاف ہتک عزت کی عدالتی کارروائی کو کچھ عرصے کے لیے روکے جانے کی درخواست پر عدالت میں جواب جمع کروادیا۔
میشا شفیع نے 10 اکتوبر کو لاہور کی سیشن کورٹ میں اپنے خلاف چلنے والے ہتک عزت کے مقدمے کی کارروائی کو فی الحال روکنے یا ملتوی کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔
گلوکارہ نے اپنے وکلا کے ذریعے دائر درخواست میں عدالت کو بتایا تھا کہ ان کے اور ان کے گواہوں کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں سائبر کرائم کا ایک کرمنل مقدمہ دائر ہوا ہے، جس کی وجہ سے ان کے گواہ خوف زدہ ہوگئے ہیں، اس لیے ہتک عزت کی سماعت فی الحال ملتوی کی جائے۔
عدالت نے میشا شفیع کی درخواست پر مختصر سماعت کے بعد علی ظفر سے 13 اکتوبر تک جواب طلب کیا تھا اور اب اداکار نے جواب جمع کروا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: میشا شفیع کی اپنے خلاف ہتک عزت کے دعوے پر کارروائی روکنے کیلئے درخواست
اداکار نے اپنے جواب میں عدالت کو بتایا کہ ان کی شکایت پر ایف آئی اے نے میشا شفیع اور اس کے محض 4 گواہوں کے خلاف سائبر کرائم کا مقدمہ دائر کیا ہے جب کہ اداکارہ ہتک عزت کے کیس میں 20 گواہوں کی فہرست جمع کروا چکی ہیں۔
علی ظفر نے اپنے جواب میں عدالت کو بتایا کہ میشا شفیع کے ان گواہوں کے خلاف سائبر کرائم کا مقدمہ دائر ہوا، جو ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلا رہے تھے اور اس کیس کو بہانا بنا کر ہتک عزت کے کیس کی سماعت ملتوی نہیں کی جا سکتی۔
علی ظفر کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ میشا شفیع کی جانب سے دائر درخواست کا مقصد عدالتی کارروائی میں تاخیر کرانا ہے۔
علی ظفر نے یہ بھی کہا کہ سائبر کرائم کیس کا فیصلہ آنے تک ہتک عزت کے دعوے کے کیس کو روکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
گلوکار نے اپنے جواب میں کہا کہ کسی کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرنا ہراسگی نہیں ہوتا۔
مزید پڑھیں: میشا شفیع نے منظم منصوبہ بندی سے ذاتی مفاد کیلئے مجھے ٹارگٹ کیا، علی ظفر
علی ظفر کی جانب سے جواب جمع کرائے جانے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج یاسر علی نے دونوں کو بحث کے لیے 17 اکتوبر کو طلب کرلیا۔
خیال رہے کہ ہتک عزت کا کیس تقریبا گزشتہ 2 سال سے زیر سماعت ہے، یہ کیس علی ظفر کی جانب سے میشا شفیع کے خلاف اس وقت دائر کیا گیا تھا جب گلوکارہ نے ان پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے تھے۔
میشا شفیع نے اپریل 2018 میں علی ظفر پر اپنی ٹوئٹس میں جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تھے، جنہیں علی ظفر نے جھوٹا قرار دیا تھا۔
بعد ازاں میشا شفیع نے علی ظفر کے خلاف جنسی ہراسانی کی درخواست محتسب اعلیٰ پنجاب اور گورنر پنجاب کو بھی دی تھی اور گلوکارہ کی دونوں درخواستوں کو مسترد کردیا گیا تھا۔
مذکورہ درخواستیں مسترد کیے جانے کے بعد علی ظفر نے میشا شفیع کے خلاف لاہور کی سیشن کورٹ میں ایک ارب ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا، جس پر تقریبا گزشتہ 2 سال سے درجنوں سماعتیں ہوچکی ہیں۔
مذکورہ کیس میں علی ظفر اور ان کے تمام 13 ہی گواہوں نے بیانات قلم بند کروا دیے ہیں جب کہ میشا شفیع کے وکلا نے ان سے جرح بھی مکل کرلی ہے۔
اسی کیس میں میشا شفیع اور ان کی والدہ نے بھی اپنے بیانات قلم بند کروا لیے ہیں، تاہم میشا شفیع کے گواہوں کے بیانات قلم بند ہونا اور ان پر جرح ہونا باقی ہے۔
میشا شفیع کے گواہوں کے بیانات اور ان سے جرح کے بعد ہی مذکورہ درخواست پر عدالت کوئی فیصلہ سنائے گی، تاہم خیال کیا جارہا ہے کہ اس عمل میں مزید 3 سے 4 ماہ لگ سکتے ہیں۔
دوسری جانب ستمبر کے آخر میں علی ظفر کی شکایت پر ایف آئی اے نے میشا شفیع اور اداکارہ عفت عمر سمیت 9 شخصیات کے خلاف سائبر کرائم کے تحت مقدمہ دائر کیا تھا۔
تمام شخصیات پر الزام ہے کہ انہوں نے منصوبہ بندی کے تحت سوشل میڈیا پر علی ظفر کے خلاف الزامات لگا کر ان کی شہرت کو نقصان پہنچایا اور ابھی اسی سائبر کرائم کا فیصلہ ہونا بھی باقی ہے۔
علاوہ ازیں اپریل 2018 سے لے کر اب تک علی ظفر سے کم از کم تین خواتین جھوٹے الزامات لگائے جانے پر معافی بھی مانگ چکی ہیں۔
علی ظفر سے معافی مانگنے والی خواتین میں معروف بلاگر و صحافی مہوش اعجاز، بلاگر حمنہ رضا اور صوفی نامی خاتون شامل ہیں۔
تینوں خواتین نے بھی علی ظفر پر میشا شفیع کے بعد اپنی ٹوئٹس میں ہراسانی کے الزامات لگائے تھے، تاہم تینوں نے بعد میں اعتراف کیا کہ انہوں نے غلط الزامات لگائے اور اداکار سے معافی بھی مانگی۔