دیگر ممالک کے برعکس پاکستان میں ڈیٹنگ ایپس استعمال کرنا مشکل کیوں؟
سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے جدید دور میں آج کل جہاں دنیا بھر میں تنہائی ختم کرنے یا اپنے ہم خیالات لوگوں سے ملنے کے لیے لوگ ڈیٹنگ اور میچ میکنگ ایپس کا استعمال کر رہے ہیں، وہیں پاکستان سمیت آج بھی متعدد ممالک ایسے ہیں، جہاں کی نئی نسل کو ایسی ایپس کے استعمال میں مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں ڈیٹنگ ایپس کے استعمال میں دشواری ایک الگ مسئلہ ہے مگر ایسی ایپس کو استعمال کرنے والے درجنوں افراد بھی حقیقی ساتھی تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان گنے چنے ممالک میں ہوتا ہے، جہاں کی نئی نسل ڈیٹنگ ایپس کو استعمال کرنے کے باوجود اپنے ہم خیال لوگ تلاش نہیں کرپاتی یا پھر ایسی ایپس پر نوجوانوں کو حقیقی محبت نہیں ملتی۔
ڈیٹنگ ایپس کو استعمال کرکے محبت کی تلاش میں ناکامی کا سامنا کرنے والے پاکستانی نوجوانوں میں دارالحکومت اسلام آباد کے محمد علی شاہ بھی شامل ہیں، جنہیں ڈیٹنگ اییپس پر لاتعداد بغیر تصویر کی پروفائلز دیکھنے کے بعد بھی اب تک کوئی نہیں ملا۔
خبر رساں ادارے ایجنسی فرانس پریس ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے محمد علی شاہ نے کہا کہ پاکستان میں جہاں گھر والوں کی پسند سے شادی 'ارینج میریجز' عام ہیں وہاں خواتین آن لائن ڈیٹنگ ایپس پر گمنام رہنے کا انتخاب کرتی ہیں جس سے آن لائن ڈیٹنگ میچز مشکل ہوجاتے ہیں۔
بہت سارے ممالک جہاں آن لائن ملاقات عام ہے ان کے برعکس وہ پاکستانی جو باقاعدگی سے ڈیٹنگ ایپس کا استعمال کرتے ہیں انہیں ہراسانی اور فیصلہ کن چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اب انہیں حکومتی بندش کا بھی مقابلہ کرنا ہے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی اے نے ٹِنڈر سمیت 5 ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کردی
خواتین کو خاص طور پر ممکنہ بدلے کا خوف ہوتا ہے اور وہ اکثر اپنے حوالے سے بہت کم تفصیلات فراہم کرتی ہیں، پروفائل پکچرز کی بجائے کارٹونز، اوتارز وغیرہ استعمال کرتی ہیں۔
محمد علی شاہ نے کہا کہ لڑکیاں مطمئن نہیں ہوتیں لہذا وہ واقعی میں اپنی تصاویر اور اصلی نام نہیں استعمال کرتیں تو یہ ’اندازہ لگانے والا کھیل‘ ہے۔
خود کو دلچسپ باتیں کرنے والا بتاتے ہوئے محمد علی شاہ نئے میچز کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے لیے خوش طبعی پر انحصار کرتے ہیں اور صرف اس وقت تصویر مانگتے ہیں جب ممکنہ 'ڈیٹ' (فریق) مطمئن ہو اور ملاقات کے لیے ممکنہ طور پر تیار ہو۔
محمد علی شاہ نے کہا کہ زیادہ تر وقت میں سوائپ کرتا رہتا ہوں کیونکہ وہاں تصاویر نہیں ہیں، وہاں کوئی اصل معلومات اور نام نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں خواتین کو اتنے محتاط رہنے کا الزام نہیں دیتا، مجھے دراصل لگتا ہے کہ یہ بہت ہوشیاری ہیں۔
ممنوع
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ خاتون جو اتنی بہادر تھی کہ انہوں نے اپنی اصل تصاویر اور نام اس ایپس پر پوسٹ کیا تھا انہوں نے کہا کہ ’ٹنڈر پر ہونا ایک ممنوعہ (taboo)' جیسا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ مجھے دوستوں کی فون کالز موصول ہوئیں جنہوں نے کہا کہ انہیں یقین نہیں آتا کہ میں ٹنڈر پر ہوں۔
لیکن بزنس کلائنٹس نے ان کے ساتھ بات چیت کرنے کی کوشش شروع کی تو انہوں نے یہ ایپ ڈیلیٹ کردی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی کچھ دوست جو خطرہ مول لینے پر راضی تھیں انہیں مختلف سطح کی کامیابی ملی لیکن یہ صرف احتیاط سے پلان کی گئی ڈیٹس کے بعد ملی۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی کوئی دوسٹ ٹنڈر ڈیٹ پر جائے تو ہم بھی اسی جگہ چلے جاتے ہیں، ہم اسے ایک طریقے سے محفوظ بناتے ہیں۔
آن لائن محبت ڈھونڈنا پہلے ہی مشکل تھا اور حکام نے گزشتہ ماہ مواد کو ’معتدل’ بنانے میں ناکامی پر ٹنڈر سمیت دیگر معروف ایپس پر پابندی لگادی تھی۔
اس اقدام سے عوام کو دھچکا لگا تھا جہاں پہلے ہی اکثر آن لائن ڈیٹرز کا تعلق پاکستان کے شہری علاقوں میں موجود متوسط اور امیر طبقے سے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ارمینہ خان نے ڈیٹنگ ایپ استعمال کرنے کے حوالے سے وضاحت کردی
اس پابندی کے بعد منڈر اور بمبل جیسی ایپس رہ جاتی ہیں جبکہ محمد علی شاہ جیسے صارفین پابندی کو نظرانداز کرنے کے لیے وی پی اینز کا استعمال کرتے ہیں۔
کراچی میں مقیم 50 سالہ میچ میکر (رشتہ کروانے والی) نے کہا کہ ’ڈیٹنگ ہماری ثقافت یا مذہب کا حصہ نہیں، چیزوں کو حلال طریقے سے کرنا چاہیے خاص طور پر جب شریک حیات تلاش کرنے جیسا کام ہو'۔
وہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے خاندانوں کو ارینج میرج کے لیے پارٹنر ڈھونڈنے میں مدد کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان ڈیٹنگ ایپس پر پابندی لگانا ہماری روایات کو محفوظ کرنے کا طریقہ ہے۔
لیکن ممکنہ نقصانات کے باوجود کچھ لوگ کہتے ہیں آن لائن محبت ممکن ہے اور ارینج میریجز سے بچنے کا ایک طریقہ ہے۔
لاہور میں رہائش پذیر میڈیکل کی 23 سالہ طالبہ، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں، ان کی اپنے شوہر سے ٹنڈر پر ملاقات ہوئی تھی، انہوں نے بتایا کہ ’میں نے یہ پاکستان میں موجود ارینج میریج کے کلچر کی وجہ سے کیا جہاں مجھے ماؤں، بہنوں اور رشتہ کرانے والیوں کے سامنے لے جایا جاتا کہ وہ مجھ میں خامیاں نکالیں اور باور کروائیں کہ میں کس طریقے سے ان کے بیٹے کے لائق نہیں’۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس میں کچھ لگا جب مجھے کوئی ایسا ملا جس پر میں اعتبار، احترام اور انحصار کرسکوں، 'لیکن میں نے اسے اپنی شرائط پر پایا اور یہی چیز اسے خاص بنا دیتی ہے'۔