• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

مولانا عادل کے قاتلوں کو جلد گرفتار کیا جائے گا، وزیراعلیٰ سندھ

شائع October 12, 2020
وزیراعلیٰ سندھ نے مولانا عادل کے بھائی اور ان کے بیٹے سے تعزیت کی—فائل/فوٹو:ڈان نیوز
وزیراعلیٰ سندھ نے مولانا عادل کے بھائی اور ان کے بیٹے سے تعزیت کی—فائل/فوٹو:ڈان نیوز

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ مولانا عادل خان کے قاتلوں کو جلد گرفتار کیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق مراد علی شاہ نے کراچی کے علاقے حب ریور روڑ میں واقع جامعہ فاروقیہ کراچی میں مولانا عادل خان کے بھائی مولانا عبیداللہ خالد اور بیٹے مولانا مفتی انس سے تعزیت کی۔

مزید پڑھیں:کراچی: جامعہ فاروقیہ کے مہتمم مولانا عادل قاتلانہ حملے میں جاں بحق

انہوں نے کہا کہ مولانا عادل خان ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتے تھے اور ان کے قاتلوں کو جلد گرفتار کیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ سندھ کے ہمراہ ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن بھی تھے۔

بیان کے مطابق وزیراعلیٰ کے دورے کے موقع پر مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا طارق جمیل اور مولانا حنیف جالندھری بھی جامعہ فاروقیہ میں موجود تھے۔

یاد رہے کہ جامعہ فاروقیہ کراچی کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عادل خان اور ان کے ڈرائیور کو ہفتے کو کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

قبل ازیں پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران مولانا عادل کی سیکیورٹی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری اور ناصر حسین شاہ کی جب مولانا ڈاکٹر عادل خان سے بات ہوئی تھی تو انہوں نے خود ہمیں نہیں کہا تھا کہ انہیں سیکیورٹی درکار ہے لیکن ان کے بیٹے نے یہ ذکر ضرور کیا تھا اور ہم نے ان کو سیکیورٹی کی فراہمی پر کام شروع بھی کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں بھی وہ شریک تھے اور وہاں بھی یہی بات ہوئی کہ انہیں سیکیورٹی نہیں ملی ہے، ہم نے آئی جی سندھ کی موجودگی میں انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ان سمیت دیگر مایہ ناز علمائے کرام کو سیکیورٹی دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:جامعہ فاروقیہ کے مہتمم مولانا عادل خان سپردخاک

سعید غنی کا کہنا تھا کہ جب مولانا عادل کی شہادت کا واقعہ ہوا تو میں نے چیک کیا کہ ان کو سیکیورٹی ملی یا نہیں، تو پتا چلا کہ ان کے نام پر دو پولیس اہلکار الاٹ ہوئے تھے لیکن وہ دونوں اہلکار شاہ فیصل کالونی میں ان کے مدرسے پر ڈیوٹی کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ تفصیل بتانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو یاد ہو گا کہ جب چیف جسٹس ثاقب نثار تھے تو ایک فیصلہ کر کے گئے جس کے ذریعے انہوں نے مصیبت ہمارے گلے میں ڈالی ہوئی ہے کہ آپ خطرے کی جانچ کی کمیٹی (تھریٹ اسسمنٹ کمیٹی) بنائیں اور کسی کو سیکیورٹی کی ضرورت ہے تو پہلے یہ کمیٹی اس بات کا تعین کرے گی کہ کس کو سیکیورٹی ملنی چاہیے یا نہیں ملنی چاہیے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں بنی یہ کمیٹی ہمارے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے، حکومت یا وزیر اعلیٰ کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ حکم دے کہ اس فرد کو سیکیورٹی دے دی جائے، ہم مجبور ہیں نہیں دے سکتے جس کے نتیجے میں اس قسم کے واقعات ہو جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس یہ اختیار ہونا چاہیے کہ اگر ہم محسوس کریں کہ سیاسی، مذہبی یا کسی اور شخص کو خطرات لاحق ہیں تو ہم فوری طور پر سیکیورٹی فراہم کریں تاکہ اس طرح کے واقعات سے بچ سکیں۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ صرف ڈاکٹر محمد عادل نہیں بلکہ کئی ایسے لوگ ہیں جنہیں ہم سمجھتے ہیں کہ فوری طور پر سیکیورٹی دینی چاہیے لیکن ہم نہیں دے پا رہے ہیں۔

وفاقی وزرا کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک اور مسئلہ بھی ہوا ہے کہ شیخ رشید نے ایک پریس کانفرنس کی اور اس میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جو جلسے کر رہی ہے ان جلسوں میں کورونا بھی پھیلے گا اور دہشت گردی بھی ہو سکتی ہے، اس کے چند گھنٹوں بعد کراچی میں یہ دہشت گردی کا بڑا واقعہ ہوا۔

صوبائی وزیر نے مطالبہ کیا کہ مولانا ڈاکٹر عادل کے قتل سے متعلق تفتیشش میں شیخ رشید کو بھی شامل کیا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ اس کے پاس وہ کون سے ذرائع ہیں، اس کو کس نے بتایا ہے کہ اپوزیشن کے جلسے میں دہشت گردی ہو سکتی ہے، اگر اس کے علم میں یہ چیزیں ہیں تو اسے بتانا چاہیے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے مزید کہا کہ دہشت گرد تنظیمیں اور غیرملکی طاقتیں اگر یہ کرانا چاہتی ہیں اور اگر شیخ رشید کو پتا ہے تو سوال یہ ہے کہ فوری طور پر حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں۔

خیال رہے کہ 10 اکتوبر کو کراچی کے علاقے شاہ فیصل میں نامعلوم مسلح افراد نے جامعہ فاروقیہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عادل خان اور ان کے ڈرائیور کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر عادل خان وفاق المدارس کے سابق سربراہ مولانا سلیم اللہ خان مرحوم کے صاحبزادے تھے۔

مزید پڑھیں:مولانا عادل کا قتل: شیخ رشید کو شامل تفتیش کیا جائے، سعید غنی کا مطالبہ

اس واقعے کی تفصیل سے متعلق حکام نے بتایا تھا کہ جامعہ فاروقیہ کے مہتمم ڈاکٹر عادل خان شاہ فیصل کالونی میں ایک شاپنگ سینٹر پر مٹھائیاں خریدنے کے لیے رکے تو مسلح افراد نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کی اور فرار ہوگئے۔

لیاقت نیشنل ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹر انجم رضوی نے تصدیق کی تھی کہ حملے کے بعد مولانا ڈاکٹر عادل خان کو لیاقت نیشنل ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دیا۔

مزید یہ کہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا تھا کہ مولانا ڈاکٹر عادل خان کے ڈرائیور مقصود احمد ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ چکے تھے۔

مذکورہ واقعے پر وزیراعلیٰ سندھ نے نوٹس لیا تھا اور انسپکٹر جنر (آئی جی) پولیس کو قاتلوں کی گرفتاری کا حکم دیا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024