• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

گوجرانوالہ میں 'خصوصی ذمہ داری' کے ساتھ سی پی او کی تعیناتی

شائع October 11, 2020 اپ ڈیٹ October 12, 2020
—فوٹو:ڈان
—فوٹو:ڈان

پنجاب پولیس کے سربراہ (آئی جی) انعام غنی نے 6 ڈپٹی انسپکٹر جنرلز (ڈی آئی جیز) اور 68 ڈپٹی سپرینٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پیز) کے تبادلے کردیے اور گوجرانوالہ میں سی پی او کو خصوصی ذمہ داری کے ساتھ تعینات کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ملک بھر میں احتجاج کے اعلان کے بعد پنجاب حکومت نے اب تک صوبے میں 200 سے زائد پولیس افسران کے تبادلے کیے ہیں۔

گوجرانوالہ میں 20 گریڈ کے افسر سرفراز احمد فلکی کو نیا سٹی پولیس افسر (سی پی او) تعینات کردیا گیا ہے جبکہ اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے 16 اکتوبر کر گوجرانوالہ میں بڑے جلسے کا اعلان بھی کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: سی سی پی او لاہور سے اختلافات: آئی جی پنجاب تبدیل، انعام غنی کو ذمہ داری سونپ دی گئی

ڈان کو ایک عہدیدار نے بتا یا کہ سرفراز احمد فلکی کے لیے یہ بڑا ٹیسٹ کیس ہوگا کیونکہ پنجاب حکومت سی پی او گجرانولا کے منصب پر ایک مضبوط پولیس افسر کو تعینات کررہی ہے تاکہ اپوزیشن کی جماعتوں کے لیے مشکلات کھڑی کی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سرفراز احمد فلکی ڈی آئی جیز رینک کے ان 6 افسران میں شامل ہیں جن کی خدمات پنجاب حکومت کو 7 اکتوبر کو دی گئی ہیں۔

پنجاب حکومت کی جانب سے پولیس میں ان تبادلوں سے یہ تاثر گہرا ہورہا ہے کہ حکومت مسلم لیگ (ن) کے دور میں دوسرے صوبوں میں بھیجے گئے افسران کو واپس لارہی ہے اور انہیں پی ڈی ایم کا احتجاج کو ناکام بنانے کی ذمہ داری تفویض کر رہی ہے۔

حکومت نے 6 اکتوبر کو پنجاب کے 9 سینیئر پولیس افسران کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے شبہے میں تبدیل کردیا تھا۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند دنوں میں کی گئیں اکثر تعیناتیاں اور تبادلے سیاسی بنیادوں پر ہیں اور اس کا انتظامی معاملات بہتر کرنے یا پنجاب پولیس کی کارکردگی ٹھیک کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرفراز احمد فلکی ملتان اور دیگر اضلاع میں فرائض انجام دیتے رہے ہیں اور رائے بابر سعید کی جگہ گوجرانوالہ میں انہیں بہتر افسر کے طور پر لایا جارہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق بابر سیعد کو سی پی او کے عہدے سے اس لیے ہٹا دیا گیا کہ وہ شہر میں پی ڈی ایم کی ریلی حکومتی توقعات کے مطابق قابو نہیں کرپائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بابرسعید سمیت 6 ڈی آئی جی افسران کی خدمات 6 اکتوبر کو وفاق کو واپس کردی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں:آئی جی پنجاب کا تبادلہ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج

پنجاب حکومت نے جن افسران کی خدمات وفاق کو واپس کی ہیں ان میں اسپیشل پروٹیکشن یونٹ (ایس پی یو) کے ڈی آئی جی بلال صدیق کامیانا، ایلیٹ پولیس پنجاب کے ڈی آئی جی اخترعباس، پنجاب ڈی آئی جی ویلفیئر شوکت عباس، پنجاب ہائی وے پیٹرول کے ڈی آئی جی ہمایوں بشیر تارڈ اور ڈپٹی کمانڈنٹ آف پنجاب کانسٹیبلری انکسار خان افغان شامل ہیں۔

عہدیدار نے کہا کہ گوجرانوالہ کے ایس ایس پی آپریشنز ڈاکٹر فہد احمد کو اسی بنیاد پر تبدیل کردیا گیا ہے۔

پنجاب پولیس میں چند ماہ کے دوران دو اعلیٰ سطح کے افسران کے تبادلے پر پریشانی پائی جاتی ہے۔

پولیس کے تبادلوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سینیئر افسر عمران محمود کو پنجاب ٹریفک کا نیا ڈی آئی جی تعینات کرنے سے خاص کر پولیس سروس آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے افسران سمیت دیگر کی جانب سے محکمے میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

آئی جی پنجاب نے صوبے بھر میں 68 ڈی ایس پیز کے بھی تبادلے کردیے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024