• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

سپریم کورٹ نے جنگ گروپ کے چیف ایگزیکٹو کے خلاف کیس کا ریکارڈ طلب کرلیا

شائع October 9, 2020
میرشکیل الرحمٰن کو 12 مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
میرشکیل الرحمٰن کو 12 مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: جنگ گروپ کے چیف ایگزیکٹو میر شکیل الرحمٰن کی ضمانت بعد ازا گرفتاری کی سماعت میں سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے پراسیکیوٹر کو طلب کرلیا اور ٹرائل کورٹ کو کیس کی مکمل اپڈیٹ فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے 8 جولائی کو میڈیا ٹائیکون کی ضمانت مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق زیر حراست میر شکیل الرحمٰن کی نمائندگی خواجہ حارث احمد نے کی کہ ان کے مؤکل کو رواں برس 12 مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

جب عدالت نے پوچھا کہ ان پر کیا چارجز عائد کیے گئے ہیں تو وکیل نے بتایا کہ مؤکل اب تک عدالتی ریمانڈ پر ہیں، بعدازاں سماعت کو 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سی ای او جنگ گروپ میر شکیل الرحمٰن کا ضمانت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

خیال رہے کہ 30 ستمبر کو ہونے والی گزشتہ سماعت میں جسٹس عمر عطا بندیال، جو اس سے قبل 3 رکنی بینچ کی سربراہی کررہے تھے، نے ذاتی وجوہات کی بنا پر سماعت سے معذرت کرلی تھی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے چیف جسٹس گلزار احمد کو کیس واپس بھجواتے ہوئے درخواست کی تھی کہ اسے دوبارہ مقرر کیا جائے جس پر جمعرات کو یہ سماعت کے لیے مقرر ہوا۔

اپیل میں کہا گیا کہ درخواست گزار کو ضمانت سے انکار حقائق، ریکارڈ کی سنگین غط بیانی اور قابل اطلاق قانون کی مکمل غلط فہمی ہے۔

قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور کے ڈائریکٹر جنرل اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر/ انویسٹی گیشن افسر محمد عابد حسین کو اس درخواست میں فریق بنایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کی درخواست مسترد کر دی

پٹیشن میں استدعا کی گئی کہ پلاٹوں کے استثنیٰ سے متعلق کیس کو 34 سال بعد کھولنا جس پر نہ کبھی لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور نہ ہی کسی دوسری اتھارٹی یا اراضی کے مالک نے اعتراض اٹھایا یا شکایت کی، لامحالہ اس پر غور کرنا قانون کے تحت غیر ضروری ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ 12 مارچ کو درخواست گزار کو ایک کال اپ نوٹس کے ساتھ منسلک سوالنامے کا جواب جمع کروانے کے لیے نیب دفتر بلایا گیا تھا جہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

درخواست میں الزام لگایا گیا کہ گرفتاری کے لیے لگایا گیا ہر ایک الزام جھوٹا اور بنایا گیا ہے اور نیب نے مذموم مقاصد اور قانون سے غیر متعلق وجوہات پر درخواست گزار کو گرفتار کیا۔

میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری

خیال رہے کہ 12 مارچ کو احتساب کے قومی ادارے نے جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو اراضی سے متعلق کیس میں گرفتار کیا تھا۔

ترجمان نیب نوازش علی کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ادارے نے 54 پلاٹوں کی خریداری سے متعلق کیس میں میر شکیل الرحمٰن کو لاہور میں گرفتار کیا۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ میر شکیل الرحمٰن متعلقہ زمین سے متعلق نیب کے سوالات کے جواب دینے کے لیے جمعرات کو دوسری بار نیب میں پیش ہوئے تاہم وہ بیورو کو زمین کی خریداری سے متعلق مطمئن کرنے میں ناکام رہے جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف اہلیہ کی درخواست پر نیب سے جواب طلب

نیب کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 1986 میں غیر قانونی طور پر یہ زمین میر شکیل الرحمٰن کو لیز پر دی تھی۔

واضح رہے کہ میر شکیل الرحمٰن کو 28 فروری کو طلبی سے متعلق جاری ہونے والے نوٹس کے مطابق انہیں 1986 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کی جانب سے غیر قانونی طور پر جوہر ٹاؤن فیز 2 کے بلاک ایچ میں الاٹ کی گئی زمین سے متعلق بیان ریکارڈ کرانے کے لیے 5 مارچ کو نیب میں طلب کیا گیا تھا۔

دوسری جانب جنگ گروپ کے ترجمان کے مطابق یہ پراپرٹی 34 برس قبل خریدی گئی تھی جس کے تمام شواہد نیب کو فراہم کردیے گئے تھے، جن میں ٹیکسز اور ڈیوٹیز کے قانونی تقاضے پورے کرنے کی دستاویز بھی شامل ہیں۔

بعد ازاں گرفتاری کے اگلے ہی روز نیب نے انہیں احتساب عدالت میں پیش کر کے جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا بعدازاں انہیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا اور اب تک وہ جیل میں ہی قید میں ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024