ترکی: بغاوت کے مقدمے میں آرمی چیف کو عمرقید کی سزا
سلیوری: ترکی کی ایک عدالت نے پیر کے روز ایک سابق آرمی چیف کو حکومت کے خلاف سازش کے الزام میں عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔
خیال رہے کہ اس ہائی پروفائل کیس میں 275 افراد کا مقدمہ چل رہا ہے جبکہ فیصلے کے بعد مظاہروں کو سلسلہ شروع ہوگیا۔
پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیا جبکہ ہزاروں افراد فیصلے پر سراپائے احتجاج ہیں۔
سابق آرمی چیف الکر باس بگ اور کئی فوجی افسران بشمول رپورٹر ٹونجائے ویزکن اور وکیل کیمل کیرنگسئیز کو قید کی سزا دی گئ ہے۔ تاہم اکیس افراد کو بری کیا گیا ہے۔
اس مقدمہ کو وزیراعظم طیب اردگان اور ان کے سوشلسٹ اورفوجی مخالفین کے درمیان آزمائش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ملزمان پرعائد کیے گئے دیگرالزامات میں زیر زمین دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط ،غیر قانونی ہتھیار رکھنا اور 2002 میں برسر اقتدار آنے والی رجب طیب ایردوآن کی منتخب حکومت کے خلاف مسلح بغاوت پر اکسانا بھی شامل ہے۔
ایک نچی ٹیلیویژن کیمطابق پندرہ افراد کو بھی سزا دی گئی تھی لیکن انھیں فوری طور پر بری کر دیا گیا۔
استنبول کے قریب سلیوری میں عدالت نے انتہائی حفاظتی ماحول میں فیصلہ سنایا۔
اے ایف پی فوٹو گرافر نے رپورٹ میں بتایا کہ فیصلے کے اعلان کے بعد استنبول ٹیکرڈیگ ہائی وے جو کورٹ کمپلکس سے چند میٹرپر واقع ہے پولیس اور تقریبا دس ہزار مظاہرین کے درمیان چھڑپیں شروع ہو گئیں۔
استنبول کے گورنر حسیوین اوانی میٹلو نے جمعہ کے روز کہا تھا کہ کورٹ کے باہر مظاہرےکی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انقرہ میں سینکڑوں افراد نے سڑکوں پر عدالت کے فیصلہ کے خلاف مظاہرہ کیا ان کا کہنا تھا کہ ہم مصطفی کمال اتاترک کے سپای ہیں جو جدید ترکی کے بانی تھے۔
ترکی میں سیکولر اپوزیشن نے 2008 میں شروع ہونے والےاس مقدمے کا ٹرائل طویل ہونے پر تنقید کرتے ہوئےاسے حکومت مخالف عناصر کو نشانہ بنانے سے تعبیر کیا ہے
جبکہ حکومت کے حامی دہشت گردی کے نیٹ ورک کا ٹرائل کرنے کو بہتر اقدام سمجھتے ہیں۔
1960 سے فوج اورفوجی رجحان عناصر چار مرتبہ حکومتوں کا تختہ الٹا چکے ہیں۔