ڈائناسور کا ڈھانچہ ڈھائی ارب روپے میں فروخت
امریکا کے ایک نیلام گھر میں ڈائناسور کی لمبی ترین نسل کے جانور ٹائرانوسار کا ڈھانچہ تقریباً ڈھائی ارب روپے میں فروخت ہوگیا۔
ٹائرانوسار کو ٹی ریکس بھی کہا جاتا ہے اور یہ ڈائناسور کی لمبی ترین نسل ہے، ریکس لاطینی زبان کا لفظ ہے، جس کی معنی بادشاہ ہوتا ہے۔
ٹائرانوسار کو ڈائناسور جانوروں میں بادشاہ کی اہمیت حاصل رہی ہے، کیوں کہ یہ اپنے لمبے قدر اور طاقت کی وجہ سے اپنی نسل کے دیگر جانوروں سے مفرد ہوتا تھا۔
خبر رساں ادرے ایجنسی فرانس پریس (اے ایف پی) کے مطابق امریکی شہر نیویارک کے نیلام گھر کرسٹیز میں ٹی ریکس کا فوسل (ڈھانچہ) 3 کروڑ 18 لاکھ ڈالر کی ریکارڈ رقم میں فروخت ہوگیا۔
فروخت ہونے والے فوسل کی ابتدائی قیمت 60 سے 80 لاکھ لگائی گئی، تاہم یہ ریکارڈ قیمت پر فروخت ہوا اور اس کی نیلامی سے ڈائنا سور کے ڈھانچوں کی نیلامی کا نیا رقم بھی بنا۔
ڈھانچے کی نیلامی کے آغاز کے 2 منٹ ہی شائقین نے اس کی بولی 90 لاکھ ڈالر تک لگائی، تاہم اگلے 14 منٹ میں ڈھانچے کی خریداری کے لیے 2 کروڑ 75 لاکھ ڈالر کی بولی لگائی گئی، جس میں کمیشن کی رقم سمیت دیگر اخراجات شامل کیے گئے تو یہ رقم تین کروڑ 18 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کے سب سے بڑے ڈائناسور کے فوسلز دریافت
اس سے قبل 1997 میں شکاگو کے سودبے میوزیم میں ہی ایک جانور کا ڈھانچہ 84 لاکھ امریکی ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔
ڈھانچےکی فروخت کے لیے نیویارک سمیت ہانگ کانگ میں مذکورہ نیلام گھر کی فرنچائز میں بھی بندوبست کیا گیا تھا۔
جس ٹائرانوسار یعنی ٹی ریکس کا فوسل (ڈھانچہ) فروخت کیا گیا، اس متعلق خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ 6 کروڑ 70 لاکھ سے قبل زمین پر پایا جاتا تھا اور زندہ ہونے کے وقت اس کا مجموعی وزن 8 ٹن تک ہوگا۔
جس ڈھانچے کو فروخت کیا گیا اس کی لمبائی 40 فٹ جب کہ چوڑائی 13 فٹ ہے اور ڈھانچے پر ایسے نشانات موجود ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی نسل کے دوسرے جانوروں سے لڑا ہوگا۔
مزید پڑھیں: چار پروں والے ڈائنا سورز کی باقیات دریافت
مذکورہ ڈھانچے کو امریکی ریاست جنوبی ڈکوتا سے 1987 میں زمین سے کھود کر نکالا گیا تھا اور یہ ڈھانچہ اچھی حالت میں موجود تھا اور اسے اسٹان کا نام دیا گیا تھا۔
ماہرین نے تین ہزار گھنٹوں تک کھدائی کرنے کے بعد مذکورہ فوسل کو نکال کر اس سے الگ ہونے والی 188 ہڈیوں کو ڈھانچے سے جوڑا تھا۔
مذکورہ ڈھانچے کو دنیا بھر کے درجنوں میوزیم اور نیلام گھروں میں نمائش کے لیے رکھا گیا تھا اور ماہرین نے اس کی کئی تصاویر بھی بنائی تھیں۔
زیادہ تر ماہرین کے مطابق مذکورہ ڈھانچہ ایک ایسے ٹائرانوسار کا ہے جو ممکنہ طور پر 20 سال کی عمر میں مرا۔
ماہرین نے مذکورہ ڈھانچے سمیت گزشتہ سوا صدی یعنی 1902 سے لے کر اب تک ایسے 50 ڈھانچوں کو ہی تلاش کیا ہے، جن میں سے زیادہ تر ڈھانچے فروخت کے بعد اب شوقین افراد کی نجی ملکیت بن چکے ہیں۔