نیب اجلاس میں مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیگر کے خلاف انکوائریوں میں پیش رفت کا جائزہ
قومی احتساب بیورو (نیب) کے ایگزیکٹو بورڈ نے آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا کے صدر امیر مقام اور کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف انکوائریز میں پیش رفت کا جائزہ لیا اور قانون کے مطابق تمام انکوائریاں اور تحقیقات مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت نیب ہیڈکوارٹرز اسلام آباد میں ہوا جس میں ڈپٹی چیئرمین نیب، پراسیکیوٹر جنرل نیب، ڈی جی آپریشن، ڈی جی نیب خیبر پختونخوا نے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی۔
اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ نیب کی یہ دیرینہ پالیسی ہے کہ ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے بارے میں تفصیلات عوام کو فراہم کی جائیں اور گزشتہ کئی برسوں سے رائج اس طریقہ کار کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: نیب نے مولانا فضل الرحمٰن کو طلب کرلیا
بیان میں کہا گیا کہ تمام انکوائریاں اور تحقیقات مبینہ الزامات کی بنیاد پر شروع کی گئی ہیں اور یہ سب حتمی نہیں ہیں، قانون کے مطابق تمام متعلقہ افراد سے بھی ان کا موقف معلوم کرنے کے بعد مزید کارروائی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اجلاس میں مالم جبہ سوات کیس میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کی مصدقہ نقول کی روشنی میں قانون کے مطابق کارروائی کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔
نیب کا کہنا تھا کہ اجلاس میں بینک آف خیبر پشاور کے افسران اور عہدیداروں اور دیگر کے خلاف قواعد و ضوابط کی مبینہ طور پر خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی بھرتیوں کے الزام کی تحقیقات کی منظوری دی گئی۔
بیان میں بتایا گیا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا کے صدر امیر مقام، کیپٹن (ر) صفدر اور شیر اعظم وزیر کے خلاف مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر انکوائریوں میں پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ متضاد خبریں آئی تھیں کہ نیب نے مولانا فضل الرحمٰن کو آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام میں تحقیقات کے لیے طلب کرلیا ہے، جبکہ ان کے قریبی ساتھی موسیٰ خان کو 24 ستمبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اس سے قبل نیب خیبر پختونخوا نے صوبائی حکومت کے افسر و مولانا فضل الرحمٰن کے چھوٹے بھائی ضیاالرحمٰن کو بھی طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: فضل الرحمٰن کے قریبی ساتھی موسیٰ خان گرفتار، 6 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے
ضیاالرحمٰن کو غیر قانونی اثاثے رکھنے سمیت متعدد الزامات پر شروع کی گئی انکوائری میں 25 اگست کو تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔
بعد ازاں پشاور کی احتساب عدالت نے 26 ستمبر کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے گرفتار رہنما موسیٰ خان کو 6 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔
اس حوالے سے ان کے بیٹے اور سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن کے ذاتی سیکریٹری طارق کا کہنا تھا کہ ان کے والد موسیٰ خان کو گزشتہ شب اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ڈیرہ اسمٰعیل خان سے پشاور جارہے تھے جبکہ انہوں نے وہاں نیب کے سامنے پیش ہونا تھا۔
نیب کے مطابق ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں بلین ٹری سونامی کیس، نوابزادہ محمود زیب ودیگر، عثمان سیف اللہ اور دیگر کے خلاف جاری تحقیقات میں اب تک کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔
چیئرمین نیب کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام انکوائریاں اور تحقیقات قانون کے مطابق آزادانہ، منصفانہ، شفاف، میرٹ اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر مکمل کی جائیں گی اور متعلقہ تمام افراد سے قانون کے مطابق ان کا موقف حاصل کیا جائے گا تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب ملک سے بدعنوانی کے خاتمے اور کرپشن فری پاکستان کے لیے انتہائی سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میگا کرپشن کے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا نیب کی نہ صرف اولین ترجیح ہے بلکہ اس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: بلین ٹری سونامی: نیب نے 4 انویسٹی گیشنز، 6 انکوائریز کی منظوری دے دی
بیان میں بتایا گیا کہ نیب نے احتساب سب کے لیے کی پالیسی کے تحت 466 ارب روپے بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر بدعنوان عناصر سے برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کروائے جو ایک کامیابی ہے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کا تعلق کسی سیاسی جماعت، گروہ اور فرد سے نہیں بلکہ صرف اور صرف ریاست پاکستان سے ہے۔
انہوں نے ہدایت کی کہ مفرور اور اشتہاری ملزمان کی گرفتاری کے لیے قانون کے مطابق اقدامات کیے جائیں تاکہ بدعنوان عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکے جہاں قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ چیئرمین نیب نے ہدایت کی کہ شکایات کی جانچ پڑتال، انکوائریاں اور تحقیقات مقررہ وقت میں قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچائی جائیں اور تمام تحقیقاتی افسران اور پراسیکوٹرز پوری تیاری، ٹھوس شواہد اور قانون کے مطابق عدالتوں میں نیب مقدمات کی پیروی کریں تاکہ بدعنوان عناصر کو قانون کے مطابق سزا دلوائی جاسکے۔