انصاف کا معیار آزاد عدلیہ اور آزاد ججوں کے بغیر ناقابل فہم ہے، جسٹس اطہر من اللہ
اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ہائی پروفائل کیسز کی سماعت کرتے ہوئے آزاد جج کو کس دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہیگ کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ برائے انصاف ایکسلنس کے زیر اہتمام ایک ویبنار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی شخصیت سے متعلق کیس کا فیصلہ کرنے کے بعد مجھے اطلاع ملی کہ ملک سے باہر ایک شریف آدمی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی ہے جس میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ میں اپیل کنندہ کی طرف سے تحفے میں دی گئی پراپرٹی کا فائدہ اٹھانے والا تھا، اپارٹمنٹ کی تفصیلات اتنے اعتماد کے ساتھ بیان کی گئیں کہ جو لوگ مجھے نہیں جانتے تھے وہ کہانی پر یقین کرنے میں حق بجانب ہوتے، یہ ویڈیو وائرل ہوچکی تھی۔
مزید پڑھیں: جب تک ججز مکمل آزاد اور دباؤ سے بالاتر نہ ہوں، انصاف ممکن نہیں، چیف جسٹس
ایک اور مثال دیتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ گزشتہ سال ستمبر میں جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں ایک کانفرنس میں شریک تھا، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کچھ ججز بھی اس میں شریک تھے، جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے تھے اس کے باہر ایک کوبرا اسپورٹس کار نمائش میں تھی، میں نے اور سپریم کورٹ کے ایک اور جج نے گاڑی میں اپنی تصویر کھینچی تھی، یہ تصویر اس عنوان کے ساتھ وائرل ہوگئی کہ میں لندن میں تھا اور دوسرا شخص (عدالت عظمیٰ کا جج) ایک سیاسی جماعت کا دفتردار تھا، جعلی خبروں اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈے کو پھیلانے کے آلے کے طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی طاقت اس وقت واضح ہوگئی جب چند گھنٹوں کے بعد مجھے میری اہلیہ کا فون آیا جس نے شبہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ آیا میں واقعی کیپ ٹاؤن میں ہوں، جج کو متنازع بنانے کی کوششوں کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
جج کے فیصلے پر سوشل میڈیا کے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس دور کی ٹیکنالوجی میں جج سوشل میڈیا تک براہ راست یا بالواسطہ رسائی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہونے والے واقعات سے متعلق معلومات حاصل کرنے سے نہیں بچ سکتا، بلاشبہ یہ بہت سارے فوائد فراہم کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے بہت سارے چیلنجز کو جنم دیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف کا معیار اور تاثیر آزاد عدلیہ اور آزاد ججوں کے بغیر ناقابل فہم ہے، اسی طرح جب بطور ادارہ عدلیہ میں آزادی کا فقدان ہے تو آزاد جج اپنی مطابقت کھو دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مختصراً ایک جج کی اپنے پیش کیے گئے مقدمے کی حقائق اور قانون کے مطابق کسی حلقے سے کسی بھی وجہ سے واسطہ یا بالواسطہ کسی پابندی یا اثرورسوخ، دباؤ دھمکی یا مداخلت کے بغیر کسی فرد جج کی اہلیت حقائق کی بنیاد پر اور قانون کے مطابق غیرجانبدارانہ انداز میں معاملات کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت آزادی کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کے پہلے چیف جسٹس انتقال کر گئے
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ اور آزاد ججوں کی آزادی کے تناظر میں سوشل میڈیا کی مطابقت اور اس کے چیلنجز کی جڑیں اس یقین دہانی پر مبنی ہیں کہ عدالتی فرائض کی انجام دہی کے دوران جج کو نامناسب اثرات، دباؤ یا دھمکیوں سے بچایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی قوتوں نے عدالتی کارروائی اور ججز پر اثر انداز ہونے کی کوششیں بھی کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جج کو کیا رد عمل ظاہر کرنا چاہیے؟ ادارہ جاتی طور پر سب سے زیادہ موزوں جواب کیا ہوگا؟ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے غلط استعمال سے انصاف اور انتظامیہ کے اسٹیک ہولڈرز پر شدید اثر پڑتا ہے، عدالتی نظام اور عدالتی افسران پر ان کا اعتماد اہم ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی مطیع اللہ جان کی جانب توہین آمیز ٹوئٹ اپ لوڈ کرنے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست پر اپنے حکم کا بھی حوالہ دیا، انہوں نے کہا کہ انہوں نے (آغاز میں) حدود میں رہ کر درخواست خارج کردی، اگر کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپ لوڈ کردہ پیغام کی بنیاد پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جاتی تو اس سے درخواستوں کا سیلاب آ جاتا، انہوں نے کہا کہ آزاد جج کا وقار اور ساکھ اتنی کمزور نہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک ٹوئٹ سے اس کو نقصان پہنچا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست خارج کردی
انہوں نے شرکا سے کہا کہ جج کو یہ سیکھنا چاہیے کہ وہ خوف زدہ یا سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر موجود مواد سے متاثر نہ ہوسکے۔
انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان فورمز پر جعلی، بدنیتی پر مبنی، غلط اور گمراہ کن مواد کو نظرانداز کرتے ہوئے حلف برداری کے عزم اور اعتماد کی بنیاد پر چیلنجوں کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔
یہ خبر 2 اکتوبر 2020 بروز جمعہ ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔