پنجاب حکومت بیوروکریسی کے اعتماد کو بحال کرنے میں ’ناکام‘
لاہور: پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب حکومت ابھی تک صوبے کے امور کو مؤثر انداز میں چلانے کے لیے میرٹ پر فیصلے لینے اور بیوروکریٹس کے میرٹ پر تقرر کرنے کے لیے بیوروکریسی پر اعتماد پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابقہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کی جانب سے پیش کردہ ماڈل، اعلیٰ گریڈ کے عہدوں پر کم درجے کے افسران کی تعیناتی پر بھی حکومت کو تنقید کا سامنا ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے پی ٹی آئی کی حکومت سنبھالنے کے بعد بدعنوانی کے الزامات پر چند اعلیٰ سطح کے بیوروکریٹس کی گرفتاریوں کے بعد بیوروکریسی کا اعتماد ختم ہوگیا تھا۔
یہاں تک کہ وزیر اعظم کی زیرصدارت متعدد ’نقصانات کو کم کرنے کے لیے منعقدہ اجلاس’ سے بھی افسران کا اعتماد بحال نہیں ہوسکا تاکہ وہ عوام کے پیسوں کو بغیر کسی خوف و خطر کے مختلف منصوبوں پر خرچ کرسکیں۔
مزید پڑھیں: بیوروکریٹس کی ترقی کے نئے اصول اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج
سینئر بیوروکریٹ نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’بڑے مالیاتی فیصلے لیتے ہوئے بیوروکریٹس آزاد نہیں کیونکہ یہ حکومت نااہلی یا غلطی اور بدعنوانی میں بھی فرق نہیں کر سکتی‘۔
ایک اور عہدیدار نے بتایا کہ بیشتر افسران لو پروفائل تھے اور صرف وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کی براہ راست ہدایات پر عمل پیرا تھے یا ان کے منصوبوں اور تجاویز کو پنجاب کابینہ سے منظوری حاصل کرنی پڑتی تھی۔
افسر نے کہا کہ ’عوامی سطح پر اخراجات کے بغیر ملک کی معیشت کو ترقی کی راہ پر نہیں لگایا جاسکتا‘۔
ایک سینئر بیوروکریٹ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ عثمان بزدار کی انتظامیہ نے اب چیف سیکریٹری جواد رفیق ملک کو بھی خاموش کرادیا ہے اور انہیں متعلقہ محکموں کے وزرا کے ساتھ مشترکہ صدارت میں اجلاس کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’صرف وفاقی حکومت اور وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے وژن کو ہی حقیقت میں تبدیل کیا جا رہا ہے، بیوروکریٹس، جو فیصلے لیتے ہیں، کو سیاسی قیادت کے وژن پر عمل کرنے اور اس پر عمل درآمد کرنے تک پابندی عائد کردی گئی ہے‘۔
اگرچہ سول بیوروکریسی اور پولیس میں زیادہ تر تبادلوں اور پوسٹنگ کا فیصلہ وزیر اعظم کررہے ہیں لیکن بیوروکریسی میں حالیہ ردوبدل سے بہت سارے لوگوں میں تشویش پائی جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی پیکج عملدرآمد اور نگراں کمیٹی میں بیوروکریٹس اور فوجی افسر شامل
ان میں سب سے اہم پنجاب لوکل گورنمنٹ اور کمیونٹی ڈیولپمنٹ (ایل جی اینڈ سی ڈی) کے سیکریٹری ڈاکٹر احمد جاوید قاضی کی جگہ پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری (اربنائزیشن اینڈ انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ) طاہر خورشید کی تعیناتی ہے جو افسران کے حلقوں میں ’ٹی کے‘ کے نام سے مشہور ہیں۔
21 گریڈ کے افسر طاہر خورشید کو چیف منسٹر انسپیکشن ٹیم (سی ایم آئی ٹی) کے چیئرمین کے عہدے کا اضافی چارج رکھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔
سی ایم آئی ٹی کے چیئرمین ہونے کی حیثیت سے انہیں وزیر اعلی کی ہدایت پر پیچیدہ امور کی تحقیقات کرنی ہوں گی۔
ذرائع کے مطابق طاہر خورشید، جسے سابق چیف سیکریٹری میجر (ر) اعظم سلیمان نے ہٹادیا تھا، وہ عثمان بزدار انتظامیہ میں بڑے اثر و رسوخ اور حمایت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
طاہر خورشید کو 21 گریڈ میں کم گریڈ کی پوسٹ سے ترقی دیتے ہوئے تعینات کیا گیا تھا اور یہ ایسے وقت میں کیا گیا جب ایل جی اینڈ سی ڈی محکمہ اس صوبے میں تمام اہم بلدیاتی انتخابات کرانے کی تیاری کر رہا ہے۔
طاہر خورشید جو سابق وزیر اعلی شہباز شریف کے خلاف آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں نیب کے وعدہ معاف گواہ بھی ہیں، وزیر اعلی کے آبائی ضلع ڈی جی خان ڈویژن کے کمشنر اور محکمہ مواصلات اور ورکس (سی اینڈ ڈبلیو) کے سیکریٹری کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
ایک سینئر بیوروکریٹ نے ڈان کو بتایا کہ بیوروکریٹس کا ایک بااثر گروہ سامنے آیا ہے جسے ’ٹی کے گروپ‘ کہا جارہا ہے جس میں وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری افتخار علی سہو اور ملتان ڈویژن کے کمشنر جاوید اختر محمود اس کے ممبران کی حیثیت سے شامل ہیں۔
ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی اوز
سابق وزیر اعلی شہباز شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بزدار حکومت اعلی درجے کے عہدوں پر تعینات جونیئر افسران کے ذریعے صوبے کے انتظامی امور بھی چلا رہی ہے۔
3 ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز سمیت مختلف اضلاع میں تعینات 19 ڈپٹی کمشنرز (ڈی سی) 19 گریڈ اور 20 گریڈ کے بجائے 18 گریڈ کے آفیسرز ہیں۔
جہاں ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں ڈی سی کی پوسٹ 20 گریڈ کی ہے اس وقت کوئی بھی 20 گریڈ کا آفیسر خدمات انجام نہیں دے رہا ہے۔
اسی طرح پولیس آرڈر 2002 کی خلاف ورزی میں 18 گریڈ کے تقریباً 20 افسروں کو ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) تعینات کیا گیا ہے جو 19 گریڈ کی پوسٹ ہے۔
ایک ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ 19 گریڈ کے تقریباً 90 پولیس افسران اپنے درجات کے مطابق صوبے میں پوسٹنگ کے منتظر ہیں۔