بچوں کو ماحولیاتی مسائل سے روشناس کروانے کا دلچسپ طریقہ
زمین کو لاحق سنگین دباؤ کو سمجھنے میں بچوں کی مدد کرنا ایک مشکل کام ہوسکتا ہے، لیکن کراچی میں مقیم مصنفہ اور عکاس رومانہ حسین 3 عشروں سے اپنی نفیس تصویری کتابوں کے ذریعہ فضائی آلودگی، پلاسٹک، ترقیاتی کاموں جیسے موضوعات اور دنیا پر ان کے اثرات پر لوگوں کو باخبر کررہی ہیں۔
60 سے زائد کتابوں کی مصنفہ نے کہا کہ ’میں نے ہمیشہ فطرت کے بارے میں لکھنے اور بولنے کو ترجیح دی ہے۔ اس کی نعمتیں، درخت، جانور، زمین اور ماحول، پھر انسان کی طرف سے اس کا بے رحمانہ استحصال، نیز دوستی، ہمدردی، امن، ہم آہنگی، جامعیت بھی‘۔
حال ہی میں، رومانہ حسین نے ایک نئے مشن کا آغاز کیا ہے: یعنی وہ بچوں کو کتابوں اور مطالعے سے محبت کرنے کی ترغیب دینا چاہتی ہیں۔ وہ بچوں کے ساتھ بڑوں کے وقت گزارنے کی روایت کو بھی زندہ کرنا چاہتی ہے۔ رومانہ کہتی ہیں کہ بچوں کی کتابیں بلند آواز سے پڑھنے کے لیے ہیں۔ کورونا وبا نے لوگوں کی مصروفیت کم کرنے اور کنبوں کو ایک ساتھ زیادہ وقت گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔
یہ رومانہ حسین کے مشن کے لیے ایک بہترین وقت تھا، خاص کر والدین اور بچوں کو کچھ وقت لینے، تھوڑا رکنے اور کرہ ارض پر ہونے والی تباہی کے بارے میں سوچنے کی ترغیب دینے کے لیے۔
وبائی بیماری کے دوران داستان گوئی
رومانہ گزشتہ 5 ماہ سے امریکا میں مقیم ہیں اور اپنے کنبے کے ساتھ ‘وبائی وقت’ گزار رہی ہیں۔ وہ یہ کام داستان گوئی کے ذریعے کر رہی ہے اور انہوں نے مارچ سے 170 سے زائد ویڈیوز اپ لوڈ کی ہیں۔ اپنی کتابوں سے کہانیاں سنانے کے ساتھ ساتھ، رومانہ اپنی پوتیوں کی کتابوں سے بھی موضوعات منتخب کرتی ہیں۔ وہ اپنے فیس بک پیج، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر بھی ویڈیوز پوسٹ کرتی ہیں۔
وہ پرانے اور عصری ادب کا مرکب اور تھوڑی سی شاعری استعمال کرتی ہیں۔ الف لیلیٰ ہزار داستان سے لے کر شیل سلورسٹن کی مشہور کتاب 'دی گیونگ ٹری' (The Giving Tree) اور ان کے اپنے کام تک۔
انہوں نے تھرڈ پول کو بتایا کہ وہ ان موضوعات کے قریب رہنے کی کوشش کرتی ہیں جن کے بارے میں وہ قوی احساس رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ ویڈیوز میں، وہ انگریزی کہانی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرتی ہیں تاکہ ‘پاکستان میں موجود بچے ان کو بہتر انداز میں سمجھ سکیں’۔
انہیں ایک ابھرتے ہوئے فین کلب سے پیغامات ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایک نے کہا ‘میں نے ساری رات آپ کی کہانیاں پڑھتے دیکھتے گزاری‘۔ ایک اور شوقین کا کہنا ہے ‘آپ کی کہانی سنانے کا انداز حیرت انگیز ہے!’۔ اور پاکستان کے کچھ دانشوروں نے، جن میں ماہرِ تعلیم اور ماہرِ لسانیات عرفہ زہرہ بھی شامل ہیں، انہیں طویل ویڈیو پیغامات بھیجے ہیں۔ اس محبت کے بارے میں رومانہ کہتی ہیں کہ یہ سب ان کے لیے اعزاز ہے۔ اس کے علاوہ، کچھ اسکول ان کی ویڈیوز کو اپنی آن لائن کلاسوں کے لیے بھی استعمال کررہے ہیں۔
بطور ایک ماحول دوست
ایک مرکزی موضوع جو رومانہ حسین کی کتابوں میں نظر آتا ہے وہ ماحولیات ہے۔ ان کی پہلی کتاب ’حسن کی گلی‘، کوڑے اور محلوں کو صاف ستھرا رکھنے اور ایک کالے بھوت کے اوپر تھی جو ہر جگہ موجود پلاسٹک بیگز میں جان ڈال کر انہیں متحرک کرسکتا ہے۔ یہ کتاب دو عشرہ قبل شائع ہوئی تھی لیکن ان کے پیغامات آج بھی اہم ہیں۔
ان کی ایک گرافک کتاب، ایک پاکستانی ترقیاتی پریکٹیشنر اور سوشل سائنٹسٹ ڈاکٹر اختر حمید خان کے بارے میں تھی جس میں انہوں نے پائیدار ترقی کے تصور کی وضاحت کی۔
اس کے علاوہ دو زبانوں میں موجود کتاب ’کھو کھو کھو‘، دی کفنگ سٹی (The Coughing City) میں بڑھتی ہوئی آبادی، ہوا اور صوتی آلودگی اور انفراسٹرکچر کی ترقی پر بات کی گئی ہے جن کی وجہ سے جانوروں اور درختوں کے لیے زمین تنگ ہوگئی ہے۔
ان کا کام پاکستان اور بیرونِ ملک دونوں جگہوں پر پسند کیا جاتا ہے۔ ، انہوں نے 2014ء میں ‘ڈاکٹر اختر حمید خان’ کے لیے چوتھا یو بی ایل جنگ لٹریری ایکسی لینس ایوارڈ جیتا۔ پرتھم بُکس، انڈیا کے لیے لکھی گئی ان کی کتاب ’لال بادام‘ نے انڈیا میں ناصرف ایوارڈ جیتا بلکہ اس کا پانچ دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔ ایک اور دو لسانی کتاب، پریرنا اور لال پیلہ، جس کی انہوں نے نیپالی مصنفہ بودھی ساگر کے ساتھ مشترکہ تصنیف کی تھی، نے نیپالیز سوسائٹی فار چلڈرنس لٹریچر کا بہترین کتاب ایوارڈ جیتا۔
ان کا ایک اور کارنامہ 1980ء کی دہائی میں کراچی کے ایک نجی اسکول سی اے ایس (C.A.S) کے ماحولیات کے نصاب کی تشکیل ہے، جہاں وہ ہیڈ ٹیچر تھیں۔ انہوں نے جماعت سوم سے ششم تک کے لیے ورک شیٹس اور تدریسی کتابچے سمیت مکمل نصاب اکیلے تیار کیا۔
کورونا وائرس پر نظمیں
آن لائن کہانی سنانے کے علاوہ، رومانہ حسین نے حال ہی میں ایمیزون کے لیے اپنی پہلی ای۔کتاب ‘ایٹین اینڈ اینگری ڈاٹ’ (Etienne and the Angry Dot) شائع کی ہے۔ یہ لاک ڈاؤن کے دوران ایک چھوٹے بچے کی منظوم کہانی ہے جو ان کے اندر ‘پنپ رہی تھی’۔
ابتدا ہی میں، یہ ایک خاندانی منصوبہ بن گیا۔ انہوں نے کہا ‘خاص طور پر میرے بیٹے نے کچھ مفید مشورے دیے اور مجھے ایمیزون پر شائع کرانے کی ترغیب دی اور میری بیٹی عاصمہ نے اس ترتیب کو ڈیزائن کیا’۔
یہ کتاب لکھنے کی ترغیب انہیں اپنے 3 سالہ پوتے ایٹین سے ہوئی جو پیرس میں رہتا ہے۔ رومانہ کے مطابق ‘میں ایٹین کو سمجھانا چاہتی کہ یہ وائرس خطرناک ہے اور یہ عالمی سطح پر غیر معمولی نقصان پہنچا رہا ہے، لہٰذا ہمیں اس کے خلاف سخت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت گزر جائے گا، لیکن ہمیں اس سے کچھ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے’۔
وہ اسے نثر میں نہیں لکھنا چاہتی تھیں، کیونکہ انہیں لگا کہ یہ ‘تاریک اور شدید’ ہوجائے گی۔ شاعرانہ طرز کا انتخاب کرکے وہ ‘احتیاط اور امید’ کا ایک ایسا امتزاج تشکیل دینا چاہتی تھیں جو بچوں میں تشویش کم کرے۔ وہ بچوں کو یہ بھی سمجھانا چاہتی تھیں کہ زمین جو انسانی سرگرمیوں کے باعث مخدوشیت کی طرف مائل ہے، کس طرح لاک ڈاؤن کے دوران اس پر عارضی طور پر ‘شفا بخش’ اثر پڑا ہے۔
رومانہ نے زور دیا کہ وہ ‘بچوں پر زبردستی اخلاق تھوپنا نہیں چاہتی’، بلکہ ایسی کتابیں تخلیق کرنا چاہتی ہیں جو ‘دلچسپ، پڑھنے میں تفریح، غیر جانبدارانہ اور لطیف پیغامات رکھنے والی’ ہوں۔
لاہور میں چلڈرن لٹریچر فیسٹول کی بانی، بیلا رضا جمیل نے دی تھرڈ پول سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ‘ان کی کتابیں یقینی طور پر درسی کتب جیسی نہیں ہیں جنہیں ہمارے بچے اسکولوں میں پڑھنے اور مطالعے پر مجبور ہیں۔ ہم تسکین بخش اور زندگی سے بھرپور مطالعے کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور رومانہ حسین اپنی تحریروں اور عکاسی کے ذریعہ اس میں کمال رکھتی ہیں’۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول پر شائع ہوا، جسے بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں