علی ظفر کی شکایت پر میشا شفیع، عفت عمر سمیت 9 افراد کے خلاف مقدمہ درج
لاہور: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے گلوکار و اداکار علی ظفر کے خلاف مذموم مہم میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر گلوکارہ میشا شفیع اور دیگر 8 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔
ڈان اخبار کیرپورٹ کے مطابق ایف آئی اے کی خصوصی عدالت کے حکم پر مشتبہ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔
پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کے سیکشن (1) 20 اور پاکستان پینل کوڈ کے آر/ڈبلیو 109 کے تحت میشا شفیع، اداکارہ و میزبان عفت عمر، لینیٰ غنی، فریحہ ایوب، ماہم جاوید، علی گل، حزیم الزمان خان، حمنہ رضا اور سید فیضان رضا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
مزید پڑھیں: علی ظفر نے میشا شفیع کو 100 کروڑ ہرجانے کا نوٹس بھجوا دیا
ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ مشتبہ ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے تفتیشی افسر پر خصوصی عدالت سے پیشگی اجازت لینا لازمی ہے کیونکہ یہ 'جرم نا قابل دست اندازی پولیس'(ایسا جرم جس میں پولیس بغیر وارنٹ کے گرفتار نہیں کرسکتی) ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق مشتبہ ملزمان کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے متعدد مرتبہ اپنے دفاع کے لیے طلب کیا گیا تھا تاہم پیش نہ ہونے کے باعث ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
خیال رہے کہ نومبر 2018 میں علی ظفر نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں شکایت درج کروائی تھی جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ کئی سوشل میڈیا اکاؤنٹس ان کے خلاف 'توہین آمیز اور دھمکی آمیز مواد' پوسٹ کررہے ہیں۔
انہوں نے اپنے دعوے کی حمایت میں ٹوئٹر اور فیس بک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی فراہم کی تھیں۔
علی ظفر نے الزام لگایا تھا کہ اپریل 2018 میں میشا شفیع کی جانب سے جنسی ہراسانی کے الزام سے ہفتوں قبل کئی جعلی اکاؤنٹس نے گلوکار کے خلاف مذموم مہم کا آغاز کیا تھا۔
گلوکار و اداکار نے کہا تھا کہ ان میں سے اکثر جعلی اکاؤنٹس مبینہ طور پر میشا شفیع سے منسلک تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ہتک عزت کا دعویٰ: میشا شفیع 28 ستمبر کو طلب
انہوں نے دستاویزی 'شواہد' کے ساتھ ایف آئی اے کو بتایا تھا کہ' نیہا سہگل (nehasaigol1@) کے نام سے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ایک سال میں مجھ سمیت میرے اہل خانہ کے خلاف 3 ہزار توہین آمیز ٹوئٹس کیے جبکہ یہ اکاؤنٹ میشا شفیع کے جنسی ہراسانی کے الزامات سے 50 روز قبل بنایا گیا تھا'۔
دسمبر 2019 میں میشا شفیع اپنے وکلا کی ٹیم کے ساتھ ایف آئی میں پیش ہوئی تھیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ میشا شفیع علی ظفر کے خلاف اپنے (جنسی ہراسانی کے) الزام کی حمایت میں کوئی گواہ پیش کرنے میں ناکام ہوگئی تھیں۔
ایف آئی آر کے مطابق لینیٰ غنی کو بھی طلب کیا گیا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئی اور تحریری جواب ارسال کیا تھا جس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید کہا گیا کہ لینیٰ غنی 19 اپریل 2018 کو شکایت کنندہ کے خلاف ٹوئٹر پر توہین آمیز مواد پوسٹ کرنے میں ملوث تھیں۔
ایف آئی آر کے مطابق فریحہ ایوب اور ماہم جاوید کو بھی چار مرتبہ طلب کیا گیا تھا لیکن وہ انکوائری میں شامل نہیں ہوئیں۔
مزید پڑھیں: علی ظفر کو بدنام کرنے والے جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب
اداکارہ و میزبان عفت عمر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں پیش ہوئی تھیں لیکن انہوں نے اپنا بیان ریکارڈ نہیں کروایا تھا اور وقت دینے کی درخواست کی تھی لیکن متعدد درخواستوں کے باوجود انہوں نے اپنا بیان ریکارڈ نہیں کروایا۔
ایف آئی آر کے مطابق علی گل (Aligulpir@) نے بھی علی ظفر کے خلاف توہین آمیز بیانات پوسٹ کیے تھے۔
انہیں 3 مرتبہ طلب کیا گیا تھا لیکن وہ دانستہ طور پر پیش نہیں ہوئے اور ایف آئی اے کراچی میں اپنا بیان جمع کرایا تھا۔
ایف آئی آر کے مطابق علی گل کا بیان اطمینان بخش نہیں تھا اور انکوائری کے میرٹ پر پورا نہیں اترتا تھا۔
اسی طرح حمنہ رضا نے بھی اپنا بیان جمع کروایا تھا جو 'عدم اطمینان بخش' تھا، ایف آئی آر کے مطابق حسیم الزمان کو بھی 4 مرتبہ طلب کیا تھا لیکن وہ بھی تحقیقات میں شامل نہیں ہوئے۔
ایف آئی آر کے مطابق سید فیضان رضا نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ٹوئٹس کے ذریعے علی ظفر پر لگائے گئے الزامات 'عوامی رائے پر مبنی' تھے۔
تاہم ان کے بیان پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا۔
ہتک عزت کیس کی سماعت ملتوی
دوسری جانب گزشتہ روز لاہور کی سیشن عدالت میں میشا شفیع کے خلاف علی ظفر کی جانب سے دائر کیے گئے ہتک عزت کیس کی سماعت بھی ملتوی ہوگئی۔
میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کی سماعت 28 ستمبر کو سیشن کورٹ کے پریزائڈنگ جج کی عدم دستیابی کی وجہ سے ملتوی ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: 'علی ظفر کے خلاف کوئی کیس نہیں، حقائق کو غلط انداز میں پیش کیا جارہا ہے'
گزشتہ سماعت میں ایڈشنل سیشن جج محمد یاسر حیات نے گلوکارہ میشا شفیع اور ان کے گواہان کو طلب کیا تھا۔
تاہم گزشتہ روز عدالت میں علی ظفر کی لیگل ٹیم نے آفس کلرک کو 10 اکتوبر تک دفاعی وکیل بیریسٹر ثاقب جیلانی کی عدم دستیابی سے متعلق آگاہ کیا۔
تاہم عدالتی عملے نے ہتک عزت کیس کی آئندہ سماعت 3 اکتوبر کو مقرر کردی۔
خیال رہے کہ جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کرنے پر علی ظفر کی جانب سے میشا شفیع کے خلاف 100 کروڑ ہر جانے کا دعویٰ دائر کیا گیا تھا۔
ہرجانے کے نوٹس میں میشا شفیع کو کہا گیا کہ وہ گلوکار سے 2 ہفتوں کے اندر میڈیا کے سامنے آکر معافی مانگیں ورنہ ان کے خلاف عدالت میں ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ علی ظفر کے خلاف متعدد افراد اور خاص طور پر خواتین نے اپریل 2018 کے بعد اس وقت سوشل میڈیا پر الزامات لگانا شروع کیے تھے جب میشا شفیع نے ان پر ٹوئٹ پوسٹ کے ذریعے جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تھے۔
مزید پڑھیں: میشا شفیع نے بھی علی ظفر کے خلاف 2 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کردیا
علی ظفر نے میشا شفیع کے الزامات کو مسترد کیا تھا اور بعد ازاں انہوں نے گلوکارہ کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے پر لاہور کی سیشن کورٹ میں ایک ارب روپے کے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا جس پر درجنوں سماعتیں ہو چکی ہیں۔
سیشن کورٹ میں علی ظفر اور ان کے 11 گواہوں کے بیانات مکمل ہوچکے ہیں اور اب میشا شفیع کے گواہوں کے بیانات قلم بند ہوں گے، اسی کیس میں میشا شفیع اور ان کی والدہ اداکارہ صبا حمید بھی اپنا بیان ریکارڈ کروا چکی ہیں۔
اسی عدالت میں میشا شفیع نے بھی علی ظفر کے خلاف 2 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے جس پر عدالت نے سماعت روک رکھی ہے اور حکم دیا ہوا ہے کہ پہلے علی ظفر کے ہرجانے کے کیس کا فیصلہ ہوگا۔
واضح رہے کہ علی ظفر پر ہراسانی کے الزامات لگانے والی خواتین میں سے 2 معافی بھی مانگ چکی ہیں جن میں صوفی نامی ٹوئٹر صارف اور خاتون بلاگر و سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ مہوش اعجاز شامل ہیں۔