منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف 13 اکتوبر تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے
لاہور: احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثے اور منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔
صوبائی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں جج جواد الحسن نے مذکورہ معاملے کی سماعت کی جہاں گرفتار شہباز شریف کو پیش کیا گیا۔
اس موقع پر لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد بھی عدالت پہنچی تھی، تاہم پولیس نے کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے واٹر کینن بھی منگوا رکھی تھی۔
خیال رہے کہ 28 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی تھی، جس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں احاطہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا تھا۔
مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: ضمانت مسترد، شہباز شریف احاطہ عدالت سے گرفتار
تاہم آج جب کیس کی سماعت کوئی تو جج جواد الحسن نے کمرہ عدالت میں رش پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ سپورٹر پیچھے ہٹ جائیں اور ملزم کو آگے آنے دیا جائے، اگر رش کم نہ ہوا تو میں اٹھ کر چلا جاؤں گا۔
بعد ازاں شہباز شریف نے کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، جس پر جج نے انہیں بولنے کی اجازت دی، تو شہباز شریف نے کہا کہ قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، یہ نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے، میرے وکلا نے چار دن لگا کہ دلائل مکمل کیے۔
انہوں نے کہا کہ میرے والدین نے محنت کی اور کاروبار سیٹ کیا، میں نے اپنے والدین کی جانب سے ملی جائیداد اپنے بچوں کے نام کر دی۔
عدالت میں بیان دیتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ میں کوئی تنخواہ یا بونس نہیں لیتا لیکن مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میرے آفس کہ وجہ سے میرے بچوں کے کاروبار کو فائدہ ملا۔
شہباز شریف کے مطابق انہوں نے گزشتہ روز ہائیکورٹ میں 5 دستاویزات سامنے رکھیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم نے پنجاب میں گنے کی قیمت کم نہیں کی اور نہ ہی میں نے کاشتکار کو نقصان پہنچایا، میں نے اپنے بچوں کی ملوں کو بھی سرکاری خزانے سے کوئی سبسڈی نہیں دی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے دسمبر 2017 میں 10 روپے فی کلو سبسڈی کا اعلان کیا، سندھ حکومت نے 9 روپے مزید سبسڈی دی لیکن میرے فیصلوں سے میرے بڑے بھائی اور میرے بیٹے کو کروڑوں کا نقصان ہوا۔
اس پر جج احتساب عدالت نے پوچھا کہ آپ کے اقدامات سے خزانے کو کتنا فائدہ ہوا، جس پر شہباز شریف نے کہا کہ میرے فیصلوں سے قومی خزانے کو اربوں کا فائدہ ہوا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر کا کہنا تھا کہ میں خطا کار انسان ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا ہے کہ بیٹا باپ کا اور باپ بیٹے کا ذمہ دار نہیں۔
انہوں نے حکومت اور احتساب کے ادارے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ جاری و ساری ہے۔
شہباز شریف کے مطابق ایتھنول پر میں نے 2011 میں دو روپے کی ایکسائز ڈیوٹی لگائی، میرا بیٹا ایتھنول کا پلانٹ لگا رہا تھا میں نے پھر بھی ایکسائز ڈیوٹی لگائی، ڈیوٹی کی مد میں ڈھائی ارب روپے جمع کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے۔
انہوں نے کہا کہ میرے خاندان نے ہندوستان سے ہجرت کی اور پاکستان آیا، میرے والد شام کو ہندو کی لوہے کی فیکٹری میں نوکری کرتے تھے، میرے والد نے محنت کی اور کاروبار کو بڑھایا، اسی ملک میں 18 ماہ میں میرے والد نے 6 فیکٹریاں لگائیں، یہ جب کی جائیدادیں ہیں تب میں اور نواز شریف کالج میں پڑھتے تھے۔
شہباز شریف نے عدالت میں کہا کہ ہمیں جلا وطن کر دیا گیا لیکن میں حلفیہ کہتا ہوں کہ میں نے قرض اتارنے کے لیے کسی اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی میں نے کبھی اپنے آفس کا غلط استعمال کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے تین ادوار میں ایک دھیلہ تنخواہ لی نہ ہی ٹی اے ڈی اے لیا جبکہ بیرون ملک بھی اپنے پی اے کے کمرے کا خرچ خود اٹھاتا تھا۔
اس موقع پر عدالت میں موجود نیب کے وکیل کی جانب سے شہباز شریف کے 15 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
اس پر عدالت نے نیب وکیل سے پوچھا کہ آپ کو کس چیز کا ریمانڈ چاہیے، آپ تفتیش مکمل کر تو چکے ہیں۔
وکیل عاصم ممتاز نے کہا کہ شہباز شریف سے تفتیش کرنی ہے ان کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے خود کہا کہ میرے بچے مجھ پر انحصار کرتے ہیں۔
اسی دوران نیب کے تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ شہباز شریف سے رات سوالات پوچھے لیکن شہباز شریف نے جوابات دینے سے صاف انکار کر دیا۔
اس موقع پر شہباز شریف نے عدالت کے جج سے مکالمہ کیا کہ آپ نے جو ریمانڈ دینا ہے دے دیں۔
جس کے بعد عدالت نے مذکورہ معاملے پر فیصلہ محفوظ کیا جو تھوڑی دیر بعد سناتے ہوئے عداکت نے شہباز شریف کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا اور انہیں 13 اکتوبر تک نیب کے حوالے کردیا۔
علاوہ ازیں عدالت نے شہباز شریف کی کارگردگی رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ تفتیشی حکام شہباز شریف کا بیان بھی ریکارڈ کریں۔
منی لانڈرنگ ریفرنس
خیال رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کی اہلیہ، دو بیٹوں، بیٹیوں اور دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔
اس ریفرنس میں مجموعی طور پر 20 لوگوں کو نامزد کیا گیا جس میں 4 منظوری دینے والے یاسر مشتاق، محمد مشتاق، شاہد رفیق اور احمد محمود بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کو نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے پر گرفتار کیا گیا، مریم نواز
تاہم مرکزی ملزمان میں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت، ان کے بیٹے حمزہ شہباز (پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر)، سلمان شہباز (مفرور) اور ان کی بیٹیاں رابعہ عمران اور جویریہ علی ہیں۔
ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔
اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔
اس میں کہا گیا کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔