• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

عدلیہ ہمارے تابع نہیں، ضمانت مسترد ہونے پر دیے گئے بیانات توہین عدالت ہے، حکومتی ارکان

شائع September 28, 2020
وفاقی ویز شبلی فراز کے مطابق اس فیصلے میں ہمارا کوئی لینا دینا نہیں — فوٹو: ڈان نیوز
وفاقی ویز شبلی فراز کے مطابق اس فیصلے میں ہمارا کوئی لینا دینا نہیں — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے اراکین نے شہباز شریف کی گرفتاری پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ ہمارے تابع نہیں ہے، ضمانت مسترد ہونے کو سیاسی رنگ دینا اور اس طرح کے بیانات عدلیہ پر حملہ اور توہین عدالت ہے۔

خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی تھی، جس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں احاطہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا تھا۔

ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شبلی فراز نے شبہاز شریف کی ضمانت مسترد ہونے سے متعلق فیصلے پر کہا کہ اس ملک میں اشرافیہ نے ایک قانون بنایا ہوا تھا کہ وہ قانون سے بالاتر تھے اور جو عام پاکستانی ہے جس کی کوئی پہنچ نہیں اس پر قانون کا اطلاق ہوتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی سیاست کا بنیادی سلوگن تھا کہ قانون سب کے لیے ایک ہونا چاہیے اور ان لوگوں کو کٹہرے میں لانا چاہیے جنہوں نے اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے اور ملک کے اداروں کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف کو نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے پر گرفتار کیا گیا، مریم نواز

دوران گفتگو ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ ہوا کہ قومی مفاد قربان ہوئے اور ہم ایف اے ٹی ایف کی گرے اور بلیک لسٹ کی بحث میں پڑ گئے۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ عدالت نے کیا ہے، ہم اس کا احترام کرتے ہیں عدالت انہیں بری بھی کرسکتی تھی تاہم اس میں ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، عدالت کا فیصلہ جس طرح بھی آتا ہم اس کی تائید اور احترام کرتے۔

انہوں نے کہا کہ میں اپوزیشن سے یہی توقع رکھوں گا کہ وہ اپنی سیاست کے لیے انصاف فراہم کرنے والے اداروں کو متنازع نہ بنائیں اور قانون کا احترام کریں۔

مریم اورنگزیب کی جانب سے لگائے گئے الزام پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ الزام اعلیٰ عدلیہ پر لگایا ہے کیونکہ عدلیہ ہمارے تابع نہیں ہے، کئی فیصلے ایسے ہیں جو ان کے حق میں آئے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر فیصلہ ان کے خلاف آئے تو عمران خان نے کرایا ہے جبکہ اگر حق میں آجائے تو یہ کسی اور نے کرایا ہے، اس طرح کی دوہری پالیسی نہیں ہونی چاہیے۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت سنبھالنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ان کی وہی قیادت کامیاب ہوگی جو بالکل شفاف ہو اور عوام میں قابل قبول ہو۔

کیس میں شہباز شریف کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے شواہد ہیں، شہزاد اکبر

دوسری جانب مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے شہباز شریف کی گرفتاری کا نہیں کہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب کسی عدالت سے ریلیف ملتا ہے تو عدلیہ بہت اچھی ہے اور انہیں انصاف مل گیا لیکن جب اسی عدالت کی جانب سے ایک ضمانت مسترد ہوتی ہے تو ان کی پارٹی کی ترجمان اسے 'نیب-نیازی' گٹھ جوڑ کہتی ہیں، میرا سوال ہے کہ کیا یہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا، کیا یہ عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کر رہے؟

انہوں نے کہا کہ عدالت نے ایک عبوری ضمانت دی تھی، عبوری ضمانت کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ جو تحقیقاتی ادارہ آپ کو گرفتار کرنا چاہ رہا ہے اس کے وارنٹ قابل عمل ہیں یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک ڈویژن بینچ نے کیس سننے کے بعد ضمانت مسترد کی لیکن اس کو سیاسی رنگ دینا اور اس طرح کے بیانات عدلیہ پر حملہ اور توہین عدالت بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: ضمانت مسترد، شہباز شریف احاطہ عدالت سے گرفتار

دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ یہ کیس گزشتہ 4 ماہ سے چل رہا ہے، ان کے وکلا نے عدالتی نظیریں بھی پیش کیں، جس کے بعد عدالت نے فیصلہ دیا کہ اس کیس کے میرٹ کو دیکھتے ہوئے ان کی ضمانت قبل از گرفتاری مسترد کردی جائے۔

مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ہر کیس اس کے میرٹس اور ملوث ملزمان کو دیکھ کر ہوتا ہے، کوئی ملزم اگر تفتیش پر اثر انداز ہو تو اسے بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں شہباز شریف کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے شواہد ہیں، ان اکاؤنٹس کو استعمال کرکے براہ براست فائدہ اٹھانے کا، گاڑیوں کی کسٹم ڈیوٹیز اور دیگر اخراجات ادا کرنے کا جبکہ اس کے علاوہ آمدن سے زائد اثاثوں کا معاملہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ٹھوس شواہد ہونے کی وجہ سے لاہور ہائیکورٹ نے آج ان کی ضمانت مسترد کی ہے، یہ صرف بیان بازی کی حد تک یہ ہے کہ میرے بچوں کے معاملات کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024