وہ اہم جزو جس کی کمی کورونا وائرس کی سنگین شدت کا باعث بن جائے
کورونا وائرس کے اکثر افراد میں اس کی شدت زیادہ نہیں ہوتی بلکہ علامات بھی نظر نہیں آتیں مگر کچھ جان لیوا حد تک بیمار ہوجاتے ہیں، مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دنیا بھر کے ماہرین طب جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔
اب بظاہر اس کا ایک جواب سامنے آگیا ہے اور وہ ہے وٹامن ڈی کی کمی، جس سے کووڈ 19 کی شدت سنگین یا جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
بوسٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ وٹامن ڈی کی صحت مند سطح کووڈ 19 کے مریضوں میں مختلف پیچیدگیوں بشمول سائٹوکائین اسٹروم (خون میں مدافعتی پروٹینز کا بہت زیادہ اخراج ہونا) کو کم کیا جاسکتا ہے۔
وٹامن ڈی سورج کی روشنی میں گھومنے سے جلد میں قدرتی طور پر بنتا ہے مگر مخصوص غذاؤں اور سپلیمنٹس کے ذریعے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
تحقیق کے نتائج گزشتہ چند ماہ کے دوران سامنے آنے والی تحقیقی رپورٹس کو تقویت پہنچاتے ہیں۔
نیویارک کے لیونکس ہل ہاسپٹل کے ڈاکٹر لین ہوروٹز جو اس تحقیق میں شامل نہیں تھے، کا کہنا تھا کہ متعدد تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی کووڈ 19 کے مریضوں میں بدترین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے حیران کن نہیں کیونکہ وٹامن ڈی مدافعتی نظام کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے دوران کووڈ 19 کے ہسپتالوں میں زیرعلاج 253 مریضوں کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا، جن میں ورم کا باعث بننے والے سی ری ایکٹیو پروٹین اور بیماری سے لڑنے والے مدافعتی خلیات کی ایک قسم لمفوسائٹ کی تعداد کو بھی دیکھا گیا۔
تحقیق میں اس کی وجہ اور اثرات کو ثابت نہیں کیا گیا مگر یہ ضرور دیکھا گیا کہ جن مریضوں میں وٹامن ڈی کی سطح مناسب حد تک تھی، ان میں کووڈ 19 سے سنگین پیچیدگیوں بشمول خون میں آکسیجن کی کمی اور موت کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوتا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 40 سال سے زائد عمر کے ایسے مریض جن میں وٹامن ڈی کی سطح زیادہ ہوتی ہے ان میں کووڈ 19 سے موت کا خطرہ اس وٹامن کی کمی کے شکار افراد کے مقابلے میں 51.5 فیصد کم ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے پلوس ون میں شائع ہوئے۔
اسی تحقیقی ٹیم کی ایک کچھ عرصے پرانی تحقیق میں دریافت کیا گیا گیا تھا کہ وٹامن ڈی کی مناسب سطح سے کورونا وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ 54 فیصد تک کم ہوجاتا ہے، جبکہ کورونا وائرس سے منسلک خطرات کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ وٹامن ڈی کی صحت مند سطح بالائی نظام تنفس کے دیگر وائرسز جیسے فلو سے بچا سکتا ہے۔
اس نئی تحقیق کے حوالے سے محققین نے بتایا کہ اس حوالے سے بہت زیادہ خدشات ہیں کہ انفلوائنزا اور کورونا وائرل انفیکشنز کا امتزاج ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد اور اموات کی شرح میں نمایاں اضافہ کرسکتا ہے جس کی وجہ ان وائرل انفیکشنز کی پیچیدگیاں ہیں۔
محققین کا ماننا ہے کہ وٹامن ڈی اس کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے کا ایک آسان اور سستا طریقہ ہے، کیونکہ وٹامن ڈی کی کمی دنیا بھر میں بچوں اور بالغ افراد میں بہت عام ہوتی ہے، خاص طور پر موسم سرما کے مہینوں میں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ہر ایک کے لیے اہم ہے کہ وہ وٹامن ڈی سپلیمنٹ کا استعمال کرکے خطرے کو کم کرے، جس سے کووڈ کی پیچیدگیوں کا امکان بھی کم ہوسکتتا ہے۔
اس سے قبل رواں ماہ ہی امریکا کی شکاگو میڈیسین یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ جن افراد کو وٹامن ڈی کی کمی کا سامنا ہوتا ہے اور وہ اس کا علاج نہیں کراتے، ان میں کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی تشخیص کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوسکتا ہے۔
طبی جریدے جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکاار فراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ک خطرہ ایسے افراد کے مقابلے میں 1.77 گنا زیادہ ہوتا ہے جن کے جسم میں وٹامن ڈی کی سطح مناسب ہوتی ہے، یہ فرق کافی نمایں ہے۔
تحقیق میں 489 ایسے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں وٹامن ڈی کی سطح کی جانچ پڑتال کورونا وائرس کے ٹیسٹ سے کچھ ماہ پہلے ہوئی تھی۔
جن افراد میں وٹامن ڈی کی کمی کو دریافت کیا گیا ان میں کووڈ 19 ٹیسٹ مثبت آنے کا امکان بھی زیادہ دیکھا گیا۔
محققین نے بتایا کہ وٹامن ڈی کی کمی اور کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے خطرے میں تعلق کو دیکھا گیا اور نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کرکے دیکھنا چاہیے کہ وٹامن ڈی کس حد تک کووڈ 19 کے خطرے پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وٹامن ڈی ایک جزو زنک کے میٹابولزم پر اثرانداز ہوتا ہے جو کورونا وائرسز کی نقول کی صلاحیت کو گھٹا دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جسم میں وٹامن ڈی کی زیادہ مقدار انٹرلیوکین 6 کی سطح کو کم کرتی ہے جو کووڈ 19 کے مریضوں میں مدافعتی نظام کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ وٹامن ڈی سے وائرس کی نقول بنانے کی صلاحیت کم ہونے سے اس کے پھیلاؤ میں بھی کمی آتی ہے۔
اس سے پہلے برطانیہ کے 3 اہم ترین طبی اداروں سائنٹیفک ایڈوائزری کمیشن آن نیوٹریشن، نیشنل انسٹیٹوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسیلینس اور رائل سوسائٹی نے جون میں اپنی اپنی رپورٹس جاری کی تھیں جس میں کورونا وائرس اور وٹامن ڈی کے حوالے سے تفصیلات دی گئی تھیں۔
ان تینوں اداروں نے زور دیا کہ لوگوں کو وٹامن ڈی کی تجویز کردہ مقدار کے حصول کو یقینی بنائیں، جس سے نہ صرف کورونا وائرس کی شدت میں ممکنہ تحفظ مل سکے گا بلکہ یہ صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔
عام حالات میں تو انسان قدرتی طور پر سورج کی روشنی کی مدد سے وٹامن ڈی کو بناتے ہیں، جبکہ مخصوص غذاؤں جیسے انڈے، چربی والی مچھلی اور گائے کی کلیجی سے بھی اسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
رائل سوسائٹی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس جزو کی کمی کے نتیجے میں مسلز، دانتوں اور ہڈیوں کی صحت کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
سائنٹیفک ایڈوائری آن نیوٹریشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسے کچھ شواہد موجود ہیں جو وٹامن ڈی کی کمی کو انفیکشنز سے منسلک کرتے ہیں، خصوصاً نظام تنفس کی بیماریوں کی شدت بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
کورونا وائرس بھی نظام تنفس پر ہی سب سے پہلے حملہ آور ہوتا ہے جس کے بعد وہ جسم کے دیگر حصوں میں تباہی مچاتا ہے۔
حالیہ مہینوں میں متعدد تحقیقی رپورٹس میں کورونا وائرس کی شدت میں اضافے اور وٹامن ڈی کی کمی کے درمیان تعلق کا ذکر کیا گیا ہے تاہم محققین کے مطابق دیگر عناصر بھی کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد اور شدت کی وضاحت کرسکتے ہیں، اور ابھی وٹامن ڈی سے اس کا تعلق بہت زیادہ ٹھوس نہیں۔
تحقیقی رپورٹس میں لوگوں کو وٹامن ڈی اور کورونا وائرس کے حوالے سے مبالغہ آمیز دعوؤں سے بھی خبردار کیا گیا ہے خصوصاً سپلیمنٹس کی شکل میں بہت زیادہ وٹامن ڈی کا استعمال جسم میں کیلشیئم کے زہریلے مواد کے اجتماع کا باعث بنتا ہے اور گردوں کے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔