جونسن اینڈ جونسن کی کورونا ویکسین انسانی آزمائش کے تیسرے مرحلے میں داخل
معروف کمپنی جونسن اینڈ جونسن کی کورونا وائرس کی روک تھام میں مددگار ویکسین انسانی آزمائش کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔
اس ویکسین کو اگست کے شروع میں بندروں میں موثر قرار کیا گیا تھا جس کے بعد انسانوں پر اس کی آزمائش شروع ہوئی اور اب وہ بڑے پیمانے پر تیسرے ٹرائل کا آغاز کرنے والی ہے۔
یہ چین کی 4 کمپنیوں، امریکا کی موڈرینا، فیزر اور برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے بعد 8 ویں ویکسین ہے جو انسانی آزمائش کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔
تاہم دیگر ویکسینز کے برعکس اس ویکسین کا ایک ڈوز بھی کورونا کی روک تھام کے لیے موثر ثابت ہوسکتا ہے، جبکہ دیگر میں 2 ڈوز کی ضرورت محسوس ہوئی۔
آسان الفاظ میں اگر یہ ویکسین موثر قرار پاتی ہے تو دیگر ویکسینز کے مقابلے میں اس کی نصف مقدار درکار ہوگی۔
ویکسین کے تیسرے مرحلے میں برازیل، ارجنٹائن، چلی، کولمبیا، میکسیکو، پیرو، جنوبی افریقہ اور امریکا میں 60 ہزار افراد کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔
کمپنی کے چیف سائنسدان ڈاکٹر پال اسٹوفلز کے مطابق کوشش کی جارہی ہے کہ تحقیق میں مختلف نسلوں کے افراد کو شامل کیا جائے۔
اس ویکسین میں عام نزلہ زکام کا ایک کمزور وائرس اے ڈی 26 استعمال کیا گیا ہے جو کووڈ 19 کا باعث بننے والے وائرس کا جینیاتی مواد مدافعتی نظام کو تربیت کے لیے فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اس کو پہچاننے اور ختم کرنے کے قابل ہوسکے۔
چوہوں اور بندروں میں یہ ویکسین درست مدافعتی ردعمل پیدا کرنے میں کامیاب رہی جس سے لیبارٹری میں وائرس کو ناکارہ بنانے میں مدد ملی۔
انسانوں پر ابتدائی مراحل کے نتائج بھی اب تک حوصلہ افزا رہے ہیں تاہم انہیں اب تک باقاعدہ طور پر شائع نہیں کیا گیا۔
کمپنی کی کورونا ویکسین کے لیے اس پلیٹ فارم پر انحصار کیا گیا ہے جو جونسن اینڈ جونسن نے زیکا، ایچ آئی وی، آر ایس وی اور ایبولا ویکسینز کی تیاری کے لیے تشکیل دیا تھا، جن میں سے اب تک صرف ایبولا ویکسین کی منظوری دی گئی ہے، وہ بھی صرف یورپی یونین میں۔
تاہم تاہم اسٹوفلز کا کہنا تھا کہ ہم نے اس ویکسین پلیٹ فارم میں ایک لاکھ سے زائد افراد (مختلف امراض کے لیے) پر تحقیق کی گئی جس کی وجہ سے ہم بہت تیزرفتاری سے موثر کووڈ 19 ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔
امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشیز ڈیزیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے اس تحقیق کے بارے میں بتایا کہ جے اینڈ جے کی تحقیق کے نتائج کا انحصار اس پر ہوگا کہ جن افراد کو اس کا استعمال کرایا جائے گا، ان میں اور placebo استعمال کرنے والے گروپ میں کووڈ 19 کے کیسز کی شرح کیا ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس موازنے سے ہی محققین کو عندیہ مل سکے گا کہ ویکسین کس حد تک امیونٹی تشکیل دے سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دیگر کمپنیوں کی ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل جیسے موڈرینا کی ویکسین کا ٹرائل جولائی میں شروع ہوا تھا اور اس کے بارے میں نومبر یا دسمبر میں کچھ یقینی طور پر کہنا ممکن ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جونسن اینڈ جونسن نے اپنا ٹرائل دیر سے شروع کیا تو امکان ہے کہ اس کا حتمی نتیجہ دیگر کے مقابلے میں ایک یا 2 ماہ بعد سامنے آئے۔
مگر ایک عنصر جے اینڈ جے کی ویکسین کی جلد تیاری میں مدد فراہم کرسکتا ہے اور وہ یہ کہ اس کے صرف ایک ڈوز کی ضررت ہوگی، جس سے تحقیق کے وقت میں ایک ماہ کی کمی آسکتی ہے، کیونکہ دیگر ویکسینز کا دوسرا ڈوز پہلے ڈوز کے 3 سے 4 ہفتوں بعد دیا جاتا ہے۔
اس سے قبل اگست میں جونسن اینڈ جونسن کی ویکسین کی بندروں پر تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر میں شائع کیے گئے تھے جس میں محققین نے دریافت کیا کہ اس کے استعمال سے بندروں کے گروپ کو نئے کورونا وائرس سے تحفظ ملا۔
ویکسینیشن کے عمل سے گزرنے والے بندروں کے ساتھ ایسے بندروں کو بھی وائرس سے دانستہ طور پر متاثر کیا گیا جن کو یہ ویکسین استعمال نہیں کرائی گئی تھی۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ ویکسینیشن کے عمل سے گزرنے والے بندر بیمار نہیں ہوئے مگر دوسرے گروپ میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی۔
ان محققین کے مطابق اس ویکسین کے ایک ڈوز سے بندروں میں وائرس ناکارہ بنانے والا اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوا۔
جونسن اینڈ جونسن ان چند کمپنیوں میں سے ایک ہے جن کو ویکسین کی تیاری کے لیے امریکی حکومت کی جانب سے فنڈز فراہم کیے جارہے ہیں۔
ویسے تو کئی ویکسینز اس وقت انسانوں پر آزمائش کے تیسرے مرحلے سے گزر رہی ہیں مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کووڈ 19 کا باعث بننے والے وائرس پر مکمل قابو پانے کے لیے ایک سے زیادہ کامیاب ویکسینز کی ضرورت ہوگی۔