• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

جسٹس فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ جلد آنے کا امکان

شائع September 25, 2020
ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلے کا جلد اعلان کیا جائے گا۔ فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ
ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلے کا جلد اعلان کیا جائے گا۔ فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اشارہ دیا ہے کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر 19 جون کے مختصر حکم کے منتظر تفصیلی فیصلے کا جلد اعلان کردے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے سینئر وکیل حامد خان سے حتمی فیصلے کا انتظار کرنے کو کہا تھا جس کا جلد اعلان کیا جائے گا۔

عدالت میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے 11 اکتوبر 2018 کو جج کے عہدے سے ہٹانے کے نوٹیفکیشن کے خلاف اپیل پر سماعت ہورہی تھی۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے وزیر اعظم ودیگر کی انکم ٹیکس تفصیلات مانگ لیں

سماعت کے آغاز میں جسٹس عمر عطا بندیال نے حامد خان سے کہا کہ وہ بینچ کو مطمئن کریں کہ آئین کے آرٹیکل 211 کی پابندیوں کو کیسے عبور کریں جو کسی بھی عدالت کے سامنے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے ذریعے کی جانے والی کارروائی اور اس کی صدر کو بھیجی گئی رپورٹ اور آئین کے آرٹیکل 209 (6) کے تحت جج کی برطرفی کو چیلنج کرنے پر پابندی عائد کرتی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یا تو وکیل کو عدالت میں آرٹیکل 211 کی رکاوٹ کو عبور کرنے کے لیے تین بنیادیں قائم کرنے پر قائل کرنا چاہیے جیسا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کیس میں کیا گیا تھا۔

افتخار محمد چوہدری کے کیس میں کہا گیا تھا کہ صدر کو ریفرنس بھیجنا اور جوڈیشل کونسل کی رپورٹ میں غلط حقائق بیان کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سرینا عیسٰی کا ساڑھے 3 کروڑ روپے ٹیکس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار

عدالت کا کہنا تھا کہ 'یا تو حامد خان اس (تفصیلی) فیصلے کا انتظار کرسکتے ہیں جس کا جلد اعلان کیا جارہا ہے'۔

واضح رہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال ان 10 ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ کی سربراہی کر رہے تھے جس نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی تھی۔

اس سے قبل 13 فروری کو بینچ نے وکیل کو بتایا تھا کہ سابق جج شوکت صدیقی کی اپیل میں اٹھائے گئے نکات اوورلیپ ہیں اور جسٹس عیسیٰ کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کی طرح تھے۔

خیال رہے کہ 10 ججز پر مشتمل فل کورٹ بینچ نے 19 جون کو مختصر حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں اس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ان کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر تین غیر ملکی جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے صدارت ریفرنس کو منسوخ کردیا تھا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ درخواست گزار صدر کو بھیجی گئی سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ کو چیلنج کررہا ہے جس کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس عیسیٰ کیس میں آرٹیکل 211 کی وجہ سے عائد پابندی پر بھی غور کیا گیا تھا، یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس تھا جس میں ایس جے سی کی جانب سے صدر کو دی گئی رپورٹ پر سوال اٹھایا گیا تھا۔

جج نے کہا کہ وکیل کو وضاحت کرنا ہوگی کہ آئین نے ایسی رپورٹ کے خلاف اپیل کا حق کیوں نہیں فراہم کیا، در حقیقت درخواست گزار آئین میں ترمیم کا مطالبہ کررہا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان ایسے ہی چند ممالک میں شامل ہے جہاں ججز کو ہٹانے کے عمل میں پارلیمنٹ کا کوئی عمل دخل نہیں۔

تاہم وکیل حامد خان نے استدلال کیا کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3)، جس کے تحت یہ درخواست دی گئی تھی، میں سپریم کورٹ کو اپنے دائرہ اختیار پر عمل کرنے کے وسیع اختیارات فراہم کیے گئے ہیں اور وہ آرٹیکل 199 میں ذکر کیے گئے شرائط سے آزاد ہے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ شوکت عزیز صدیقی کو 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن (ڈی بی اے) میں تقریر کے دوران غیر منصفانہ طرز عمل کی نمائش پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر ہائی جوڈیشل آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔

سابق جج نے اپنی اپیل میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ معاملہ بڑی عوامی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے سلسلے میں اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں جس کے لیے عدالت عظمیٰ سے معاملے پر جلد فیصلہ سنانے کی ضرورت ہے۔

شوکت صدیقی نے عدالت عظمی سے استدعا کی تھی کہ انہیں ہٹانے کے 11 اکتوبر 2018 کے نوٹیفکیشن کو مسترد کرنے کے بعد انہیں ہائیکورٹ کے مستقل جج کی حیثیت سے بحال کیا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024