• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

آرمی چیف سے رہنماؤں کی ملاقات ہوئی، اس میں چھپانے والی کوئی بات نہیں، شاہد خاقان عباسی

شائع September 24, 2020
شاہد خاقان عباسی کے مطابق نیب ایک ایسا ادارہ ہے جو حکومت، ملک اور نہ ہی سیاست کو چلنے دیتا ہے — فوٹو: ڈان نیوز
شاہد خاقان عباسی کے مطابق نیب ایک ایسا ادارہ ہے جو حکومت، ملک اور نہ ہی سیاست کو چلنے دیتا ہے — فوٹو: ڈان نیوز

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے آرمی چیف اور پارلیمانی رہنماؤں کی ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف سے ملاقات ہوئی ہے اور اس میں چھپانے والی کوئی بات نہیں۔

کراچی کی احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) ایک ایسا ادارہ ہے جو حکومت، ملک اور نہ ہی سیاست کو چلنے دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: سیاسی معاملات پر فیصلے جی ایچ کیو کے بجائے پارلیمان میں ہونے چاہئیں، مریم نواز

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے بتایا کہ آج بھی پیشی ہوئی، چیئرمین نیب کو کسی نے نہیں بتایا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی فیصلے آئے ہیں جس سے نیب کی حقیقت سامنے آگئی ہے، میرے خیال سے چیئرمین نیب پڑھ نہیں سکتے یا انہیں کسی نے بتایا نہیں کہ یہ فیصلے آئے ہیں، ان فیصلوں کے بعد نیب کی کوئی حقیقت یا اس کا کوئی وجود باقی نیب نہیں رہتا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ ادارہ آج لوگوں کی زندگیاں تباہ کرنے پر لگا ہوا ہے، نیب کے کیسز ہولڈرز اور پبلک آفس کے کیس ہیں لیکن نیب صرف سیاستدانوں کے خلاف مقدمے بناتا ہے، ہماری ڈیمانڈ ہے کہ تفتیش کے دوران کیمرے لگا کر پاکستانی عوام کو دکھایا جائے کہ یہ کیسز کیا ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے۔

صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے 14 بل تھے، جس میں سے دو مکمل طور ملک کے مفاد کے خلاف تھے لہذا وہ مسترد کروائے، 7 بل ہماری ترامیم کے ساتھ پاس ہوئے، اگر وہ ترامیم نہ ہوتیں تو ملک کے مفاد کا اور عوام کے مفاد کا بھی سودا ہوتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جبکہ دو بل بغیر کسی ترمیم کے پاس ہوئے، 3 بل پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں لائے گئے، وفد کے بل پر کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا، دوسری جانب انسداد دہشت گردی کی ترمیم تھیں اور وہ پاس ہوئیں، یہ کالا قانون تھا جس میں ترمیم کی تجویز دی گئی تھی۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس قانون کے پاس ہونے کے بعد آج حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی بھی شہری کا پیچھا کرسکے، اس کے گھر کو اپنی تحویل میں لے سکے اور اس کے کمپیوٹر کو ہیک کرسکے اس کے ٹیلیفون کا ڈیٹا معلوم کرسکے، یہ اب قانون بن چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: محمد زبیر نے نواز شریف،مریم نواز سے متعلق آرمی چیف سے دو ملاقاتیں کیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

انہوں نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس کے علاوہ جو آخری بل تھا جس میں ہماری جانب سے 20 ترامیم پیش کی گئیں تھیں، 2 ترامیم میں مسئلہ تھا کہ نیب کے پاس انسداد منی لانڈرنگ میں اختیارات ہوں گے یا نہیں، ایک تحقیقاتی ایجنسی کے طور پر سیاستدانوں سے متعلق نیب میں پہلے سے ہی انسداد منی لانڈرنگ موجود ہے لیکن آج نیب کو اختیار دیا گیا ہے کہ کسی بھی پاکستانی کو پکڑ کر نیب کے قانون کے مطابق کارروائی کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کہا تھا کہ نیب پر یہ پابندی لگا دیں کہ نیب جو بھی تحقیقات ملک میں کرے گا وہ تحقیقات پاکستان کی عوام کے خلاف بیرون ملک استعمال نہیں ہوں گی۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بد نیتی پر مبنی بل پاس کرائے گئے جن کا ایف اے ٹی ایف سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

فوج کی سیاست میں مداخلت کے سوال پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ فوج کو سیاست میں نہیں ہونا چاہیے یہ صرف اپوزیشن کی ہی ڈیمانڈ نہیں ہے بلکہ یہ فوج کی بھی ڈیمانڈ ہے آرمی چیف بھی کہہ چکے ہیں اور آئین بھی یہی کہتا ہے جبکہ ہم بھی یہی کہتے ہیں۔

سابق وزیراعظم نے پارلیمانی رہنماؤں کی آرمی چیف سے ملاقات کے حوالے سے کہا کہ آرمی چیف سے ملاقات ہوئی تھی اور اس میں کچھ بھی چھپانے والی بات نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: عسکری قیادت سے مسلم لیگ (ن) کی ایک نہیں 2 ملاقاتیں ہوئیں، شیخ رشید

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے معاملے پر ملاقات ہوئی تھی اور کیوں کہ فوج کی ایک بڑی پریزینس موجود ہے اس لیے ملاقات بھی ہوئی۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ سیاسی معاملات کو پارلیمان میں حل کیا جانا چاہیے۔

آرمی چیف سے ملاقات کا معاملہ

واضح رہے کہ 3 روز قبل وزیر ریلوے شیخ رشید نے بتایا تھا کہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے انعقاد سے چند دن قبل حکومتی اور اپوزیشن سیاسی رہنماؤں کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے ملاقات ہوئی تھی۔

16 ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف سے ملاقات نواز شریف یا مریم نواز کی درخواست پر نہیں کی، محمد زبیر

اس اجلاس میں شرکت کرنے والے کچھ رہنماؤں نے بتایا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا۔

رپورٹس کے مطابق یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024