• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

سپریم کورٹ کے کراچی کی شہری حکومت کی کارکردگی پر سوالات

شائع September 24, 2020
بینچ ماضی قریب میں بلدیاتی حکومت کے نظام کی کارکردگی سے خوش نظر نہیں آیا—فائل فوٹو: اے پی
بینچ ماضی قریب میں بلدیاتی حکومت کے نظام کی کارکردگی سے خوش نظر نہیں آیا—فائل فوٹو: اے پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کراچی کی شہری حکومت کی کارکردگی، افعال پر سنگین سوالات کھڑے کردیے اور تعجب کا اظہار کیا کہ کیا کوئی کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن(کے ایم سی) کے گھوسٹ ملازمین کے نام پر 5 ارب روپے کھا رہا تھا۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سندھ میں بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سماعت میں انہوں نے کہا کہ 'حالیہ مصیبت میں کے ایم سی کے 20 ہزار ملازمین کہاں غائب ہوگئے تھے کہ جب کراچی کے شہریوں نے بارشوں اور گھر میں گھسنے والے سیوریج کے پانی کا سامنا کیا اور سڑکوں پر کئی دن تک پھنستے رہے'۔

بینچ ماضی قریب میں بلدیاتی حکومت کے نظام کی کارکردگی سے خوش نظر نہیں آیا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ: بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم، حلقہ بندیوں کا اعلان

سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی دائر کردہ درخواست پر اپنے دفتر کے اعتراضات مسترد کر کے اسے سماعت کے لیے منظور کیا۔

درخواست میں آئین کی دفعات، 140-اے، 3، 4، 9، 14، 16، 17، 19، 19-اے اور 25 کے تحت سندھ حکومت کو بلدیاتی اداروں کو اختیار منتقل کرنے کا حکم دینے کی درخواست کی گئی تھی۔

بینچ نے اسد علی خان کی درخواست بھی سننے کا فیصلہ کیا جو انہوں نے اپنے وکیل نوازش پیرزادہ کے توسط سے دائر کی تھی، درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ پنجاب میں پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 نافذ کر کے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو 31 دسمبر 2021 تک ان کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل تحلیل کرنے کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین کو عدالت کی معاونت کے لیے نوٹسز بھی جاری کیے۔

مزید پڑھیں: وڈیرہ ذہنیت بلدیاتی نظام نہیں چاہتی، کراچی کو اے ٹی ایم مشین بنا دیا ہے، وسیم اختر

سماعت کے دوران متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا کیس پیش کرنے والے سینئر وکیل صلاح الدین احمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جو ان کے مؤکل نے کراچی میں کیا وہ مکمل گندگی ہے۔

چیف جسٹس نے جب یہ ریمارکس دیے اس وقت عدالت میں کراچی کے سابق میئر وسیم اختر اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمر بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

چیف جسٹس نے اس بات کو یاد کیا کہ کس طرح ان محکموں کو ملازمین صبح کے آغاز سے دوپر 3 بجے تک اپنا کام کرتے رہتے تھے اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'کے ایم سی کے ملازمین اور صفائی کا عملہ کبھی کیوں نظر نہیں آیا'۔

انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ 'یہاں گھوسٹ ملازمین ہیں اور کوئی ان کی تنخواہیں کھا رہا ہے، اگر کوئی بہت اچھا قانون بھی نافذ کردیا جائے تو کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کی تعمیر و ترقی کیلئے 3 بڑی سیاسی جماعتوں کا اتفاق، کمیٹی قائم

صلاح الدین احمد نے کہا کہ وہ یہاں ایم کیو ایم کی ماضی کی کارکردگی کا دفاع کرنے نہیں آئے، وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ احتساب کو قانون میں شامل کر کے بلدیاتی حکومت کے نظام کو معقول بنایا جائے، پھر ایک موقع ہوگا کہ چیزیں بہتر ہوجائیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ یہ تصور کہ بلدیاتی نظام متعارف کروانے سے نظام بہتری آئے گی لیکن یہ نہیں ہوا اور ماضی کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ جب سیاسی مفادات آئے تو بلدیاتی نظام مزید خراب ہوا کیوں کہ سیاسی مفادات کے ساتھ مالی مفادات بھی آئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اصل مسئلہ مختلف اداروں اور محکموں کے مابین تعاون کے فقدان کا ہے۔

سماعت میں وکیل نے کہا کہ وہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کی دفعہ 74 ، 75 اور سندھ بلڈنگ کنٹرول آرڈیننس کی دفعہ 18 کو آئین کے خلاف قرار دینے کی درخواست کرتے ہیں تا کہ بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات لے کر انہیں صوبائی حکومتوں کے نمائندوں کو نہ دیا جاسکے۔

مزید پڑھیں: بلدیاتی انتخابات: قانونی سقم اور سیاست

وکیل نے کہا کہ مساوی قانون سازی کر کے کراچی سے متعدد اختیارات لے لیے گئے، آکٹرائے اور ضلع ٹیکس اس سمجھوتے کے ساتھ ختم کیا گیا کہ اس جیسے فنڈز فراہم کیے جائیں گے لیکن اس کے نتیجے میں ایک پیسہ نہیں دیا جس کے باعث ہم نے کراچی میں بارشوں کے دوران تباہی دیکھی۔

انہوں نے کہا کہ مقننہ کو بلدیاتی اداروں کو فنڈز پیدا کرنے کی اجازت دی جانی چاہیئے یا ان اداروں کو ریونیو ملنا چاہیئے تا کہ وہ کام کر سکیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت حقائق کے تنازعات میں نہیں پڑے گی، یہ صرف شیئرنگ کا کھیل ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات دینے سے چیزیں بہتر ہوجائیں گی، ہم موجودہ صورتحال میں دیکھ چکے ہیں جہاں چیزیں مزید خراب ہوگئیں۔

تاہم عدالت نے درخواست گزار سے مقامی اور بین الاقوامی قانون کی مدد سے خلاصہ پیش کرنے کا کہا اور مزید سماعت اکتوبر کے دوسرے ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024