سالگرہ کے دن مریم نواز نے شہباز شریف کو پارٹی سے نکال دیا، شہزاد اکبر
مشیر داخلہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ شہباز شریف اور ان کے اہلخانہ کے خلاف منی لانڈرنگ کا ٹی ٹی کیس لاہور کی احتساب عدالت میں داخل ہو چکا ہے اور انتہائی افسوس کی بات ہے کہ آج سالگرہ کے دن بھتیجی نے چچا کو پارٹی سے نکال دیا۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو مشتبہ ٹرانزیکشنز رپورٹ ہوئیں جس سے منی لانڈرنگ کی تفتیش کا آغاز ہوا، اب تمام شواہد اور دستاویزی ثبوتوں کی روشنی میں ٹی ٹی کیس کے نام سے ریفرنس لاہور کی احتساب عدالت میں داخل ہو چکا ہے۔
مزید پڑھیں: مرنے کے بعد بھی کرپشن ثابت ہوجائے تو قبر سے نکال کر لٹکا دیا جائے، شہباز شریف
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس ریفرنس سے اچھا اور مضبوط کیس میں نہیں سمجھتا کہ آج تک نیب کی تاریخ میں فائل ہوا ہے، یہ 55 والیوم اور 25 ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں تمام ڈاکیومینٹری ثبوت موجود ہیں جس میں بینکنگ کا ثبوت ہے جو سیدھا سادھا سا ثبوت ہوتا ہے، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے کمپنی کے ریکارڈز ہیں، ٹیکس اور الیکشن کمیشن کے ریکارڈز ہیں، غیر ملکی زرمبادلہ، سوئفٹ میسیجیز، فارم آر سمیت دیگر چیزیں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 1990 کی دہائی کے آخر میں جب امریکا نے منی لانڈرنگ پر قانون سازی شروع کی تو جن چار کیسوں کو مثال بنایا گیا تھا ان میں سے ایک بدقسمتی سے پاکستان سے لیا گیا تھا اور وہ ایک آصف زرداری کی منی لانڈرنگ کا کیس تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج اگر کسی نے منی لاڈرنگ کو اسٹڈی کرنا ہو گا تو وہ ٹی ٹی مافیا کیس ہو گا جو مثال بنایا جائے گا کیونکہ یہ انتہائی تفصیلی تفتیش ہے جس کا کریڈٹ نیب کی تفتیشی ٹیم کو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مالی بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے سدباب کیلئے قانون سازی ضروری تھی، شہزاد اکبر
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ 55 والیوم اور 25 ہزار صفحات پر مشتمل اس ریفرنس میں 16 ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے جس میں 6 اہلخانہ کے افراد ہیں جن میں شہباز شریف اس رنگ کے سربراہ ہیں، اس کے علاوہ ان کے بچے ہیں جن کے نام پر منی لاڈرنگ ہوئی ہے جبکہ 10 ان کے سہولت کار ہیں جو اس منی لاڈرنگ کے نیٹ کو چلانے کے لیے ان کو معاونت فراہم کرتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ چار وہ افراد بھی مقدمے میں نامزد ہیں جو سلطانی گواہ بننے پر تیار ہوئے اور اس معاملے میں اپنے کردار سے آگاہ کرتے ہوئے پروسیکیوشن کی معاونت کی اور شہباز شریف اینڈ فیملی کے خلاف گواہی دی۔
مشیر داخلہ نے بتایا کہ تین بے نامی کمپنیاں بھی ریفرنس کا حصہ ہیں، ایک کمپنی گڈ نیچر ٹریڈنگ پرائیویٹ کمپنی لمیٹڈ ہے جو نثار گل اور علی احمد کے نام پر بنائی گئی، نثار گل وزیر اعلیٰ ہاؤس میں 10 سال شہباز شریف کے ڈائریکٹر سیاسی امور رہے، علی احمد ڈائریکٹر اسٹریٹجی رہے، ان میں سے نثار احمد گِل زیر حراست جبکہ علی احمد اشتہاری ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس کیس میں اربوں روپے کی منی لاڈرنگ کی گئی اور ریفرنس میں براہ راست شواہد دکھائے گئے کہ یہ کس طرح شہباز شریف یا ان کے خاندان سے منسلک ہے۔
مزید پڑھیں: 'انسداد منی لانڈرنگ بل کے بعد بغیرلائسنس والے منی چینجرز غائب ہوگئے'
انہوں نے مزید بتایا کہ دوسری بے نامی کمپنی یونی ٹاس اسٹیل کے نام سے ہے، اس میں بھی یہ دو اشخاص اور تیسرا شخص طاہر نقوی ہے جو شریف گروپ آف کمپنیز میں اسسٹنٹ منیجر ہے، یہ ان تینوں کے نام پر تھی۔
شہزاد اکبر نے بتایا کہ تیسری بے نامی کمپنی نثار ٹریڈنگ کمپنی ہے، یہ کمپنی راشد کرامت کے نام پر رجسٹرڈ ہے جو شریف گروپ آف کمپنیز میں پرچیز اسسٹنٹ ہے، 18 سے 20 ہزار روپے اس کی تنخواہ ہے اور اربوں روپے اس کے اکاؤنٹ میں آ رہا ہے، اس کمپنی میں کک بیکس اور کمیشن بھی وصول کیے جاتے تھے کیونکہ پنجاب میں جب ان کی حکومت تھی تو مختلف ٹھیکیداروں اور پارٹی کے لوگوں سے پیسہ وصول کیا جاتا تھا اور ان کے بیانات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ ہم نے پارٹی ٹکٹ کے لیے حمزہ کو پیسے دیے تھے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پیسے نثار ٹریڈنگ میں کیوں جمع ہو رہے ہیں اور وہ پی ایم ایل (ن) کے پارٹی فنڈ میں کیوں جمع نہیں ہو رہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری چیز یہ کہ کیا پی ایل ایم (ن) میں پیسے دے کر عہدے لیے جاتے ہیں، ایک دو تو اس کی بڑی واضح مثالیں ہیں کہ ایک شخص کو بیت المال پنجاب میں لگا دیا گیا اور اس نے ایک کروڑ روپے حمزہ شہباز کو دیا جو اس نے نثار ٹریڈنگ میں جمع کرائی۔
مشیر داخلہ نے کہا کہ 177 جعلی غیر ملکی ترسیلات کی گئیں جنہیں ہم عام زبان میں ٹی ٹی کہتے ہیں وہ اس ریفرنس کا حصہ ہیں جو میں نے سوچا کہ پڑھ کر سنا دوں کیونکہ آج شہباز شریف کی سالگرہ بھی ہے تو سوچا کہ انہیں سالگرہ کا تحفہ دے دوں۔
یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق تین بل منظور، اپوزیشن کا احتجاج
انہوں نے پڑھتے ہوئے کہا کہ 177 جعلی غیرملکی ترسیلات کے ذریعے منظم طریقے سے انٹرنیشنل منی لانڈرنگ کی گئی اور نیب نے تجزیہ دیا کہ منی لانڈرنگ سے حاصل کردہ کالے دھن کو شہباز شریف نے استعمال کیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی امپورٹڈ لینڈ کروزر کی کسٹم ڈیوٹی انہیں جعلی اکاؤنٹس سے ادا کی گئی، ڈی ایچ اے فیز 5 لاہور میں دو مختلف گھر خریدے گئے اور ان کی ادائیگی بھی ان جعلی غیرملکی ترسیلات سے کی گئی اور اس کے علاوہ وسپرنگ پائن میں ولاز ہیں وہ بھی انہوں نے اپنی بیوی کو تحفے میں دیے ہیں جس کی ادائیگی بھی اسی سے کی گئی ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ حمزہ شہباز کے کارنامے بھی اس میں درج ہیں جنہوں نے پنجاب کے مختلف کے مختلف ٹھیکیداروں، پارٹی کے عہدیداروں اور کاروباری شخصیات سے براہ راست رقم وصول کی اور ان کے جو قابل اعتماد ملازمین شعیب قمر اور مصرور انور کو نقد و چیک لے جانے کا کام کرتے تھے اور اس وقت زیر حراست ملزمان ہیں۔
انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 50ہزار سے زائد کی ٹرانزیکشن پر بینک میں شناختی کارڈ کی نقل جمع کرانی ہوتی ہے اور اسی سے ان کا پتا چلا لہٰذا ان کے آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے بچوں کو مشورہ ہے کہ آئندہ منی لانڈرنگ کریں تو کوئی نفیس طریقہ کار اپنائیں، ساری تعلیم آکسفورڈ سے نہیں ملتی بلکہ ٹاٹ والے اسکول سے پڑھیں تو نہ پکڑے جا سکیں۔
مشیر داخلہ نے انکشاف کیا کہ جب ان کے طریقہ واردات کا انکشاف ہوا تو ایف آئی اے اب جب شوگر کمیشن میں تحقیقات کر رہی ہے تو صرف رمضان شوگر مل میں ساڑھے 9 ارب روپے کی لانڈرنگ کا انکشاف ہوا ہے اور اس میں انہوں نے جعلی اکاؤنٹس بھی بنائے۔
مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کو ناقابل ضمانت جرم بنائے جانے کا امکان
ان کا کہنا تھا کہ 11 ملازمین کے بینک اکاؤنٹس استعمال کر کے ساڑھے 9 ارب کی منی لانڈرنگ کی گئی، یہ صرف ایک شوگر مل کی تحقیقاتی رپورٹ ہے اور نہ جانے کتنے ارب کی منی لانڈرنگ نکلے گی۔
انہوں نے کہا کہ رمضان شوگر مل فیملی سیٹلمنٹ کے بعد شہباز شریف کے حق میں آئی، شہباز شریف خود سیاست میں تھے تو انہوں نے مل کا انتظام اپنے بیٹوں حمزہ اور سلمان شہباز کو سونپ دیا لہٰذا یہ براہ راست ذمے دار ہیں۔
اس موقع پر شہزاد اکبر نے شہباز شریف سے 4 سوال کیے جن میں سے پہلا یہ تھا کہ کیا آپ کے صاحبزادے سلیمان شہباز اور حمزہ شہباز آپ کی ایما پر پنجاب میں 2008 سے لے کر 2018 کرپشن اور کک بیک کا نظام نہیں چلاتے رہے؟
انہوں نے دوسرا سوال کیا کہ کیا یہ درست نہیں کہ اس کرپشن کے پیسے کو حلال کرنے کے لیے آپ نے ایک منی لانڈرنگ کے لیے منظم نیٹ ورک بنایا جس کی روزانہ نگرانی آپ نے سلیمان شہباز کو سونپی ہوئی تھی۔
مشیر داخلہ نے تیسرا سوال کیا کہ کیا یہ درست نہیں کہ آپ گاہے بگاہے حسب ضرورت اس کالے دھن سے مستفید ہونے کے لیے اس میں سے پیسے نکالتے رہے جیسے کے وسپرنگ پائن کے ولاز خریدے، ڈی ایچ اے کے گھر خریدے اور اپنی امپورٹڈ لینڈ کروزر کی کسٹم ڈیوٹی ادا کی۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف کی ضمانت میں ایک روز کی توسیع
شہباز شریف سے آخری سوال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت لندن میں مقیم آپ کا خاندان کیسے اور کن پیسوں سے اپنے خرچ پورے کر رہا ہے اور ان کا برطانیہ میں کیا کاروبار ہے؟
شہزاد اکبر نے کہاکہ میری شہباز شریف سے درخواست ہے کہ میرے سوالوں کا ایمانداری سے جواب دیں اگر وہ جواب نہیں دیتے تو آنے والے دنوں میں یہ بھی بتا دوں گا کہ لندن میں یہ کیا کچھ کر رہے ہیں۔
مشیر داخلہ نے کہا کہ بڑی افسوس کی بات ہے کہ سالگرہ کے دن بھتیجی نے چچا کو پارٹی سے نکال دیا، بزرگوں کا احترام بھی کوئی چیز ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے کہا کہ جو لوگ کھا پی رہے تھے وہ نواز شریف کے نمائندہ نہیں ہیں۔