• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

نوازشریف کی حاضری چاہیے، وفاقی حکومت جیسے چاہے یقینی بنائے، عدالت

شائع September 22, 2020
سابق وزیراعظم اس وقت لندن میں ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز
سابق وزیراعظم اس وقت لندن میں ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاناما ریفرنسز میں سزا کے خلاف سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد کی جانب سے دائر اپیلوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ نوازشریف کو بیرون ملک وفاقی حکومت نے بھیجا، ہمیں نوازشریف کی حاضری چاہیے، وفاقی حکومت جیسے چاہے یقینی بنائے۔

وفاقی دارالحکوت میں عدالت عالیہ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے پاناما ریفرنسز کے خلاف سابق وزیراعظم نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت کی، تاہم آج کی سماعت میں نواز شریف کے وکلا خواجہ حارث اور زبیر خالد پیش نہیں ہوئے جبکہ ان کی جگہ منور اقبال دگر عدالت میں موجود رہے۔

اس کے علاوہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ، ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عدالت کے روبرو پیش ہوئے، مزید یہ کہ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر عدالت میں پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیلی رپورٹ جمع کروائی، جس کے مطابق نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری حسن نواز نے وصول کیے۔

خیال رہے کہ 15 سمتبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی حاضری سے استثنی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کے عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیا گیا، ان کے وارنٹ گرفتاری لندن میں پاکستان کے ہائی کمشن کو بھیج دیے گئے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 17 ستمبر کو دفتر خارجہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے بھیجے گئے وارنٹ موصول ہوئے، جس کے بعد اسی روز ہی یہ وارنٹ برطانیہ بھیجے گئے۔

بعد ازاں 18 ستمبر کو پاکستانی ہائی کمیشن میں تعینات افسر راؤ عبدالحنان وارنٹ لے کر نواز شریف کے گھر گئے، جہاں نواز شریف کی رہائش گاہ پر تعینات شخص یعقوب نے وارنٹ وصول کرنے سے انکار کیا۔

انہوں نے بتایا کہ بعد ازاں حسن نواز نے رائل میل ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے وارنٹ موصول کیے جبکہ نواز شریف کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس 16 اور 17 پر وارنٹ وصول کروائے گئے۔

سماعت کے دوران عدالت نے پوچھا کہ نواز شریف کے وکیل کہاں ہیں، خواجہ حارث کیوں پیش نہیں ہوئے، جس پر جونیئر وکیل کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے وارنٹ جاری ہوگئے پیروی کا اختیار ختم ہوگیا، اس لیے خواجہ حارث نہیں آئے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ حکم نامے میں خواجہ حارث کو پیش ہونے سے روکنے کی کوئی ہدایت نہیں دی، ساتھ ہی عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے مؤکل نواز شریف کو وارنٹ گرفتاری سے متعلق آگاہ کیا؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ میری اطلاع کے مطابق نوازشریف اسلام آباد ہائیکورٹ کے 15 ستمبر کے حکم سے آگاہ ہیں۔

اسی دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر عدالت حکم دے گی تو نواز شریف کی حوالگی کے لیے کارروائی کریں گے، جس پر عدالت نے کہا کہ نواز شریف سزا یافتہ ہیں، عدالت میں حاضری آپ نے یقینی بنانی ہے۔

عدالت نے کہا کہ وفاقی حکومت نے نوازشریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی، نواز شریف کے بیرون ملک جانے کی اجازت پر وفاقی حکومت نے پوچھنا یا بتانا بھی گوارہ نہ کیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ ویسے انکوائری شروع ہوتی ہے بندے کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیتے ہیں، یہاں سزا یافتہ شخص باہر چلا گیا عدالت کو پوچھنے یا بتانے کی زحمت نہ کی۔

عدالت نے کہا کہ نوازشریف کو بیرون ملک وفاقی حکومت نے بھیجا، ہمیں نوازشریف کی حاضری چاہیے، وفاقی حکومت جیسے چاہے یقینی بنائے۔

سماعت کے دوران ہی جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری نہیں، جنہوں نے نوازشریف کو جانے کی اجازت دی؟ ساتھ ہی جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ حکومت نے اس عدالت میں کوئی درخواست دائر نہیں دی کہ ہم ایک سزا یافتہ شخص کو جانے کی اجازت دے رہے ہیں، اس کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے، وفاقی حکومت نے نام ای سی ایل سے نکالا، لاہور ہائیکورٹ نے نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم نہیں دیا بلکہ انہوں نے تو طریقہ کار طے کیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا سیکریٹری خارجہ کو نواز شریف کی حاضری یقینی بنانے کا حکم

عدالتی بینچ کے رکن جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ کیا آپ نے نام ای سی ایل سے نکالتے وقت وزارت قانون سے کوئی رائے نہیں لی، ساتھ ہی جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جب وفاقی حکومت نے نواز شریف کا نام نکالا تھا تو عدالت کو آگاہ کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ اہم کام تو نواز شریف کی اپیل پر فیصلہ کرنا ہے لیکن ہم ان کی حاضری پر رکے ہوئے ہیں، وفاقی حکومت نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالا اب وہ خود ذمہ دار ہے، اب وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نواز شریف کی حاضری یقینی بنائے، ہم رکے ہوئے ہیں کیونکہ 20 ہزار صفحات پر مشتمل اپیل ہے۔

عدالت میں سماعت کے دوران پوچھا گیا کہ کامن ویلتھ دفتر اور کاؤنٹی عدالت سے نواز شریف کے وارنٹ کی تعمیل میں کتنے وقت لگے گا؟ دفتر خارجہ کاؤنٹی عدالت کے ذریعے تعمیل کی میعاد پر رپورٹ دے۔

اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے یہ کہا گیا کہ نواز شریف کے وارنٹ حسن نواز نے وصول کیے جبکہ وہ خود بھی اشتہاری ہیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ وارنٹ کی تعمیل کے لیے جانے والے پاکستانی ہائی کمیشن کے قونصلر کو بلا کر بیان ریکارڈ کر لیا جائے۔

جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ پھر تواس کو ڈیڑھ لاکھ کا ٹکٹ بھی دینا پڑے گا، جس پر ساتھ ہی موجود جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ وہ بیان تو ہم وڈیو لنک کے ذریعے بھی ریکارڈ کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری دستاویز کا انتظار کرلیتے ہیں، کیا کل تک عدالت کو بتایا جا سکتا ہے کہ ہائی کمیشن کو کارروائی مکمل کرنے میں کتنا وقت درکار ہو گا۔

عدالت میں سماعت کو آگے بڑھاتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے یہ ریمارکس دیے کہ اگر عدالت اشتہار جاری کرتی ہے تو عدالت کے افسر کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پر اشتہار آویزاں کرنا ہوگا۔

اس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ کاؤنٹی کورٹ کی کارروائی پر جائے بغیر بھی یہ عدالت نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کر سکتی ہے، توشہ حانہ ریفرنس میں نواز شریف کا اشتہار جاری ہوا تو انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔

جس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے علم میں تو ہوگا لیکن عدالت کو قانون پر مکمل طور پرعمل کرنا ہوگا، کاؤنٹی کورٹ کے ذریعے وارنٹس موصول کرنے یا نہ کرنے کا دستاویز آفیشل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ کل کے لیے کیس رکھ لیتے ہیں کہ معلوم ہوجائے کہ عدالت کے ذریعے وارنٹ پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ معاملے کی سماعت کو کل تک ملتوی کردیا۔

ساتھ ہی نواز شریف کو موصول کرائے گئے وارنٹ کی اصل دستاویزات طلب کرلی جبکہ عدالت نے نواز شریف کی رہائش گاہ جانے والے افسر راؤ عبدالحنان کا بیان بھی قلمبند کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیان ویڈیو لنک پر بھی ہوسکتا ہے۔

خیال رہے عدالت کی جانب سے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار نے سیکریٹری خارجہ کو 22 ستمبر کو عدالت میں ان کی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔

قبل ازیں عدالت نے 10 ستمبر کو مقدمے کی سماعت کے دوران نواز شریف کو سرینڈر کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ دوسری عدالت میں انہیں مفرور قرار دیا گیا ہے جبکہ ان کی درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔

نواز شریف، اہلخانہ کیخلاف ریفرنسز کا پس منظر

خیال رہے کہ العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایوین فیلڈ تینوں ریفرنسز 7 لاکھ 85 ہزار آفشور کمپنیوں سے متعلق پاناما پیپرز لیکس کا حصہ ہیں جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

عدالت عظمٰی نے نواز شریف کو بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کی سزا کے خلاف اپیلیں سماعت کیلئے مقرر

جس پر 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایون فیلڈ ویفرنس میں اس وقت سزا سنادی تھی جب وہ برطانیہ میں کلثوم نواز کی تیمارداری کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کی سزا کے خلاف اپیلیں سماعت کیلئے مقرر

سزا کے بعد شریف خاندان کے اراکین پاکستان آئے جہاں انہیں قید کردیا گیا بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی۔

دوسری جانب نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں بھی سزا سنادی تھی، بعدازاں ایک خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو دباؤ پر سزا سنائی،جس پر جج کو ان کے غلط فعل پر عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔

گزشتہ برس اکتوبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 8 ہفتوں کے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اور اس میں توسیع کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم صوبائی حکومت نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024