مارننگ شو میں ورزش کرتی خاتون سے متعلق ٹوئٹ کرنا صحافی انصار عباسی کو مہنگا پڑ گیا
پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے مختلف انٹرٹینمنٹ اور نیوز چینلز پر مارننگ شوز نشر کیے جاتے ہیں جو مختلف سیگمنٹس پر مشتمل ہوتے ہیں۔
ان شوز میں کبھی شادی بیاہ کی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں، کبھی مختلف مقابلے منعقد کروائے جاتے ہیں تو کبھی مختلف شخصیات کو بطور مہمان مدعو کیا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ مارننگ شوز کوئز، ورزش اور کوکنگ جیسے مختلف سیگمنٹس پر بھی مشتمل ہوتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی گزشتہ روز ہوا جب پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) نیوز پر مارننگ شو میں ایک ورزش کا سیگمنٹ جاری تھا تو معروف صحافی انصار عباسی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے مارننگ شو کی ویڈیو شیئر کی تھی۔
شیئر کی گئی ویڈیو میں ایک خاتون ورزش کررہی تھی اور انہیں ایک مرد کی جانب سے ہدایات بھی دی جارہی تھیں۔
انصار عباسی نے ویڈیو شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ ٹوئٹ میں وزیراعظم عمران، وزیراطلاعات شبلی فراز اور معاون خصوصی برائے اطلاعات عاصم سلیم باجوہ کو مینشن کیا اور لکھا کہ یہ پی ٹی وی ہے۔
تاہم مذکورہ ٹوئٹ پر انصار عباسی کو سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک ٹوئٹر صارف نے سوال کیا کہ اس میں کیا غلط ہے؟
ایک اور صارف نے لکھا کہ اس میں کیا غلط ہے، اکثر خواتین ورزش کرتی ہیں، اس سے دماغ میں خون کا بہاؤ گردش کرتا ہے، ہر چیز کو پیچیدہ نہیں بنائیں۔
اسی طرح ایک اور ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ اس میں کیا غلط ہے؟ میں اس ورزش میں جو غلط دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ورزش مؤثر نہیں ہے اور اس کے لیے بیلٹ پہننے کی ضرورت ہے اور پی ٹی وی کو جم یا کارڈیو ٹرینرز کو بلانا چاہیے۔
ایک اور صارف نے لکھا خدا کا نام لیں انصار عباسی صاحب، کم وبیش 20 سالوں سے یہ ورزش سیگمنٹ پی ٹی وی پر چل رہا ہے اسے کیوں خان کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔
اسی طرح ایک اور صارف نے تنقید کی کہ آپ کا دماغ ہی اتنا گندا ہے، ہر چیز میں کچھ نکالنا۔
حمنہ زبیر نے لکھا کہ روز مرہ کے کام کرتی خواتین کو جنسیت کا رنگ دینا بھی ریپ کلچر کا حصہ ہے۔
نورین فاطمہ نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ 'عباسی صاحب ہم اسے ٹریننگ کی طرح کیوں نہیں دیکھ رہے؟ ہماری آنکھیں کیوں صاف نہیں؟ ہم عورت کو صرف سیکس کے زاویے سے ہی کیوں دیکھتے ہیں؟'
انہوں نے مزید لکھا کہ یہ وقت ہے کہ آپ اور سب لوگ چیزوں کو مختلف انداز میں دیکھیں ورنہ ہمارے معاشرے میں ایک بھی عورت باقی نہیں رہے گی۔
علاوہ ازیں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی انصار عباسی پر تنقید کی اور لکھا کہ اگر ورزش اور اشتہاری بورڈز پر بھی خواتین کی تصویر آپ کو دلبرداشتہ کرتی ہے تو آپ کو حقیقت میں نفسیاتی تھراپی اور مشورے کی ضرورت ہے۔
جس پر انصار عباسی نے جواب دیا کہ آپ ایسی حکومت کا حصہ ہیں جو ریاست مدینہ کے اصولوں کے مطابق پاکستان کی تعمیر نو کا دعویٰ کرتی ہے۔
انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ وضاحت کریں گے کہ قرآن و سنت یا آئین پاکستان کی روشنی میں آپ کس چیز کی حمایت کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں اینکر پرسن رابعہ انعم نے بھی طنزیہ انداز میں ٹوئٹ کی اور لکھا کہ عمران خان دیکھیں کہ صرف خاتون ورک آؤٹ کررہی ہے جبکہ مرد نہیں کررہا، یہ صحت مندانہ نہیں دنوں کو ورک آؤٹ کرنا چاہیے۔
دوسری جانب کچھ صارفین نے انصار عباسی کی حمایت بھی کی اور شو پر ورزش دکھانے کو غلط قرار دیا۔
ایک صارف نے لکھا کہ ہم صرف نام کے مسلمان رہے گے ہیں اگر یہ کچھ ہو گا تو ریپ کے کیس کیسے رکیں گے؟
ایک اور صارف نے لکھا کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے مگر افسوس یہاں کوئی کام اسلامی نہیں ہوتا، یہ بے حیائی کو فروغ دینے کا ایک طریقہ ہے۔
تبصرے (5) بند ہیں