ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے طرزِ عمل سے گریز کرنا ہوگا، صدر مملکت
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بین المذاہب ہم آہنگی، اتحاد و یگانگت اور مذہبی رواداری پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ایک قوم بننے کے لیے تفرقے سے بچنا چاہیے اور ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے طرز عمل سے گریز کرنا ہوگا۔
اسلام آباد میں منعقدہ 'وحدت امت کانفرنس' سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ قرآنی تعلیمات ہماری رہنمائی کرتی ہیں، مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ آپس میں تفرقہ نہ ڈالیں کیونکہ تفرقہ اور نفاق سے مسلمانوں کو نقصان پہنچا، ایک قوم بننے کے لیے ہمیں تفرقے سے بچنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد: ریلی میں فرقہ واریت کو ہوا دینے پر کالعدم گروپ کے رہنما کے خلاف مقدمہ
انہوں نے کہا کہ غیر ملکی سازشوں کے باعث پاکستان میں مساجد اور امام بارگاہوں میں بم دھماکے ہوئے ہیں، لیکن اس موقع پر بھی فروعی اختلافات کے باوجود عام عوام فرقہ وارانہ جھگڑوں میں نہیں پڑے۔
عارف علوی نے کہا کہ عالمی طاقتوں نے اپنا اسلحہ فروخت کرنے کے لیے ایران ۔ عراق یہ جنگیں کرائیں، اس جنگ میں 10 سال کے دوران تقریباً 10 لاکھ افراد جانوں سے گئے، آپس کی نااتفاقی و ناچاقی نے عراق اور شام کو تباہ کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے طرز عمل سے گریز کرنا ہوگا، بعض مذہبی رہنما جذبات میں آکر ایسی باتیں کر جاتے ہیں جن سے نفرتیں بڑھتی ہیں، علمی اور فروعی اختلافات اپنی جگہ لیکن جہالت پر مبنی اختلاف تفرقے کا باعث بنتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں دہشتگردی،فرقہ واریت میں بھارت کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ہیں، دفتر خارجہ
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے متحد ہو کر کورونا وبا کا مقابلہ کیا، علمائے کرام اور مشائخ نے کورونا وبا سے متعلق مساجد کے ذریعے آگاہی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
صدر مملکت نے کہا کہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جن میں نفاق نہیں ہوتا، دنیائے اسلام پاکستان کی طرف دیکھتی ہے کہ ہم ان کی قیادت کریں گے۔
اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اسلام کے خلاف نفرت اور حضور اکرمؐ کی ناموس کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر دوٹوک مؤقف اپنایا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اقلیتوں کے ساتھ مثالی سلوک کا عہد کیا ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے اقدامات کے باعث بھارت نفرت کے گڑھے میں گر رہا ہے اور اپنے لیے گڑھا خود کھود رہا ہے۔
مزید پڑھیں: ملک فرقہ وارانہ تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا، مفتی منیب
انہوں نے کہا کہ ہمیں ہم آہنگی اور اشتراک کو فروغ دینا ہے تاکہ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین دنیا کی سمجھ میں آئے اور اقوام متحدہ کو ان دونوں مسئلوں پر اپنا اصولی کردار ادا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا غلبہ اقدار اور اصولوں کی بنیاد پر ہوگا، یہ وہی اصول اور اقدار ہوں گی جس پر مسلمانوں نے اس سے پہلے عمل کیا تھا اور دنیا میں عروج حاصل کیا۔
تقریب میں صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی پیر نورالحق قادری اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام بھی موجود تھے۔
علمائے کرام نے فرقہ وارانہ تشدد کو غیر اسلامی قرار دے دیا
وحدتِ امت کانفرنس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے مذہب کے نام پر دہشت گردی، انتہاپسندی، فرقہ وارانہ تشد اور بے گناہ افراد کے قتل کو غیر اسلامی قرار دیا۔
کانفرنس میں ایک مشترکہ اعلامیہ منظور کیا گیا جس کہا گیا کہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مقرر کو انبیائے کرام، اہل بیت، صحابہ کرام، خلفائے راشدین، ازدواج مطہرات، امام صاحبان اور حضرت امام مہدی کی شان میں گستاخی کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: 'بعض داخلی و خارجی قوتیں ملک کو فرقہ وارانہ تصادم کی طرف دھکیل رہی ہیں'
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ تمام مذہبی فرقے اوپر دیے گئے کسی بھی فعل میں ملوث ہونے والے فرد کی متفقہ طور پر مذمت کریں گے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
اعلامیے میں اتفاق کیا گیا کہ اسلام کے کسی بھی مسلک کو کافر قرار دیا جائے اور نہ ہی کسی مسلم اور غیر مسلم کو ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔
مشترکہ اعلامیے میں کتب، پمفلٹس سمیت منافرت پر مبنی مواد کی اشاعت یا کیسٹس، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت پھیلانے پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں سے اظہار یکجہتی اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے عوامی سطح پر مشترکہ اجتماعات کا اہتمام کیا جائے۔
مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والے ’تحفظ اسلام‘ قانون پر تنقید
اعلامیے میں حکومت پر ان افراد کے خلاف کارروائی کرنے پر زور دیا گیا جو عبادت گاہوں اور غیر مسلموں کی مقدس مقامات کی بے حرمتی میں ملوث ہیں کیونکہ اقلیتوں کی جانوں، ان کی عبادت گاہوں اور املاک کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔
اعلامیے میں حکومت پر نیشنل ایکشن پلان کو مکمل طور پر نافذ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔