'مخالفین سمجھتے ہیں سیاسی قیادت اور فوج کے درمیان دراڑیں نہ ڈالیں تو پاکستان کامیاب ہوجائے گا'
وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت ایک حکومت اور جمہوری نظام چل رہا ہے جہاں فوج اور سول قیادت مل کر ملک کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم اپوزیشن اور پاکستان دشمن عناصر سمجھتے ہیں کہ اس نظام کو اگر نہیں چھیڑا گیا اور سیاسی قیادت اور فوج میں دراڑیں نہیں ڈالی گئیں تو پاکستان کو کامیابی سے نہیں روک سکتے۔
اسلام آباد میں وفاقی وزرا سینیٹر شبلی فراز، اسد عمر، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری نے مشترکہ پریس کانفرنس کی اور اپوزیشن کی گزشتہ روز کی آل پارٹیز کانفرنس اور اس کی تقاریر پر جواب دیا۔
سینیٹر شبلی فراز نے پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے فیصلہ کیا تھا کہ نواز شریف سے لے کر تمام اپوزیشن رہنماوں کی تقاریر کو براہ راست چلنے دیا جائے، جس پر ہم نے ان کی تعمیل کرتے ہوئے نواز شریف، آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی تقریر نشر ہوئی۔
مزید پڑھیں:اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
تاہم انہوں نے کہا کہ فضل الرحمٰن کی تقریر ہم نے نہیں روکی بلکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ان کی تقریر نہیں جانے دی، ہم تو اس کے لیے تیار تھے کہ وہ بھی بات کرتے۔
دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں نواز شریف نے الیکشن کے عمل کو مشکوک بنانے کی کوشش کی اور اس انتخابات کو دھاندلی زدہ بنانے کی کوشش کی، تاہم حقائق اور تاریخ کچھ اور بتاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نوازشریف ملک کے 3 مرتبہ وزیراعظم رہے تب تو وہ الیکشن ٹھیک تھے لیکن شاید انہیں صاف اور شفاف انتخابات کی عدات نہیں ہے اور اس مرتبہ صاف و شفاف الیکشن ہوئے اور اس میں وہ حکومت نہیں بناسکے اور حکومت بنانے جتنی نشستیں حاصل نہیں کرسکے تو اس پر وہ سیخ پا ہیں۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ 2013 کے انتخابات میں ہماری جماعت نے یہ بات اٹھائی تھی کہ کچھ حلقوں کی دوبارہ گنتی کی جائے اور چار حلقوں کو کھول دیا جائے اگر وہاں نتائج ٹھیک ہوئے تو ہم آپ کے ساتھ تعاون کریں گے اور حکومت کو بھی چلنے دیں گے لیکن یہ پوری کوشش پر بھی عدالت عالیہ کے فیصلے پر کمیشن بنایا گیا اور تحقیق ہوئی۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کو متنازع بنانا ان کا وتیرہ دیکھا ہے، چیزیں ان کی منشا کے مطابق ہو تو ٹھیک ہے، عدالت ان کے حق میں فیصلہ دے تو ٹھیک ہے ان کے خلاف دے تو ٹھیک نہیں ہے، جس انتخابات میں ان کی کامیابی ہو وہ ٹھیک ہے جس میں نہ ہو تو وہ ٹھیک نہیں ہے، اس قسم کی الجھن پھیلانا اور حقائق جانتے ہوئے چیزوں کو متنازع بنانے سے وہ نہ پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں نہ ہی جمہوریت کی، اس سے وہ ایک سیاسی نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کو وہ خود اپناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر انہیں اور کوئی اعتراضات تھے تو ان کے اراکین قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیز میں بھی موجود ہیں تو پھر یہ انتخابی اصلاحات کیوں نہیں کرتے، انہیں کی حکومت میں انتخابی اصلاحات ہوئی تھیں اگر انہیں اعتراض تھا تو اس میں شامل کردیتے۔
یہ بھی پڑھیں:آل پارٹیز کانفرنس: جدوجہد عمران خان کے نہیں انہیں لانے والوں کیخلاف ہے، نواز شریف
تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا اصل مقصد یہ ہے ہی نہیں، وہ تو ایسی تجاویز دیں گے جس سے اس موجودہ نظام میں ان کو نقصان ہو، تاہم اس انتخابات اور جمہوریت کو آپ متنازع نہ بنائیں، اس ملک نے آپ پر بہت احسانات کیے ہیں۔
نواز شریف سے متعلق انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز آپ سب نے دیکھا ہوگا کہ نواز شریف بڑے توانا، تندرست، ہشاش بشاش لگ رہے تھے، آیا ان کا پاکستان آنے کا ارادہ ہے یا نہیں، آیا وہ ابھی بھی اس بات پر قائم ہیں کہ وہ بیمار ہیں، یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات انہوں نے دینے ہوں گے۔
اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف پر بلیک میلنگ کرکے این آر او لینا چاہا، اسد عمر
اس موقع پر وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی صحت کی بات کریں تو وہ کل فواد چوہدری سے کم صحت مند نہیں لگ رہے تھے، اللہ انہیں اسی طرح تندرست رکھے۔
نواز شریف کے خطاب پر جواب دیتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے حکومت بننے کے بعد پہلی یا دوسری تقریر میں کہا تھا کہ اس اپوزیشن کی صرف سیاست داو پر نہیں لگی ہوئی بلکہ گزشتہ 20 سے 30 سال میں کرپشن کے پیسوں سے بنائی ہوئی جائیدادیں داو پر لگی ہوئی ہیں اور جب احتساب کا عمل آگے بڑھے گا تو انہوں نے مل جانا ہے اور کل سب نے وہ مناظر دیکھے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت جب آئی تو عمران خان نے گزشتہ عرصے سے جو باریاں چل رہی تھیں انہیں توڑ دیا، شروع میں اپوزیشن کی امید تھی کہ معاشی بحران کو ہم پیدا کرکے گئے ہیں اسے کے ملبے تلے حکومت نے دب جانا ہے اور انہوں نے خود ہی کچھ عرصے میں چلے جانا ہے، تاہم عمران خان نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے جستجو کی اور ہم اس سے نمٹنے میں کامیاب ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد دھرنا آگیا، جس میں انہوں نے کہا کہ حکومت گرے گی اور سارا پاکستان ہمارے ساتھ ہے لیکن جب وہ جہاں آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے ساتھ تو صرف 2 فیصد لوگ ہیں، آخر کار انہیں یہاں سے پسپائی کرنا پڑی اور یہ ناکام ہوگئے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ اس کے بعد عالمی بحران کورونا وائرس آگیا اور دنیا کی معیشت اور صحت کے نظام ہل کر رہ گئے، شروع کے دن میں یہاں ان رہنماوں میں بڑا جوش نظر آتا تھا، کچھ تو لندن سے بھاگے بھاگے واپس بھی آگئے اس امید کہ تحت کہ پاکستان میں تباہی آئے گی تو اس کو بنیاد بنا کر ہم حکومت کو ختم کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں:آج اسلام آباد میں 'آل پاکستان لوٹ مار ایسوسی ایشن' اکٹھی ہے، شہباز گل
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز کی تقاریر میں سب باتیں ہوئی لیکن کورونا وائرس پر کوئی بات نہیں کی گئی تاہم اللہ نے ہمیں کورونا پر کامیابی دی اور وزیراعظم عمران خان کے واضح موقف تھا جسے آج دنیا مان رہی ہے اور پاکستان کی مثالیں دی جارہی ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے ہاتھ سے یہ موقع بھی جب نکل گیا تو اس کے بعد ایف اے ٹی ایف کے قوانین کا معاملہ آیا، تاہم اس سے زیادہ شرمندگی کی کیا بات ہوگی اور ان کی بے چینی کس حد تک پہنچ گئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے قوانین جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں بلکہ صرف پاکستان کو بلیک لسٹ سے بچانے کے لیے ہیں ان قوانین پر بھی انہوں نے بھرپور مخالفت کی۔
دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ اپوزیشن سے سوچا کہ اس سے بہتر موقع این آر او کا موقع نہیں ہوسکتا، اپوزیشن جو کہتی تھی این آر او نہیں مانگیں گے اور کونسا این آر او، انہوں نے نیب قوانین میں 34 ترامیم کی صورت میں سامنے رکھ دیں اور بلیک میلنگ کی کہ یہ کرو گے تو ہم ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں جانے سے بچائیں گے لیکن اس پر بھی انہیں پے درپے شکست ہوتی رہی اور صورتحال یہ نظر آئی کہ ان سے اپنے اراکین ہی نہیں سنبھالے جارہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا یہ کہ جو انسداد منی لانڈرنگ قانون پاس ہوا اس سے ان کو اپنی منی لانڈرنگ کی گئی جائیدادوں کو خطرہ ہے جبھی یہ اتنے ہیجانی صورتحال میں ہیں اور چاروں طرف ہاتھ مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ ساتھ دنیا کی وہ قوتیں جو پاکستان کے خلاف ہیں اور اس سے دشمنی رکھتی ہیں ان کے لیے بھی ایک خطرناک صورتحال پیدا ہوتی جارہی ہے کیونکہ بھارت اور ایسے دیگر ممالک جو پاکستان سے مخامست رکھتے ہیں انہوں نے کہاں پریشانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا وہ علاقہ ہے جہاں پریشانی پیدا کرنے کی کوشش کی، یہ علاقہ بہت بڑا چیلنج ہوا کرتا تھا، ہماری فوج نے آپریشن کیا اور سیاسی طور پر اس علاقے کو پاکستان کا حصہ بنایا گیا، انضمام بل منظور کیا گیا وہاں ترقی کا عمل شروع ہوا اور وہاں جس طریقے کی ہم دہشتگردی کی وارداتیں دیکھتے تھے اس میں تبدیلی آئی۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ کراچی جسے 20 سے 25 برسوں سے استعمال کیا گیا، تاہم وہاں کی سیاسی و سیکیورٹی صورتحال بہتر ہوئی اور اب وہاں ایک بہت بڑا ترقیاتی پیکج بنایا گیا، اس کے علاوہ بلوچستان جہاں پاکستان مخالف قوتوں کا زور ہے وہاں کے لیے بھی وزیراعظم نے خصوصی پیکج کا کہا ہے جس کا اعلان بھی کردیا جائے گا۔
افغانستان سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں نہ صرف امن کی امید نظر آرہی بلکہ اس طریقے سے نظر آرہی ہے جس کی بات عمران خان شروع سے کرتے آرہے تھے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ عالمی قوتوں اور ہمارے دشمنوں کو بھی نظر آرہا ہے کہ پاکستان اس راستے پر نکل گیا ہے کہ اگر اسے روکا نہیں گیا یا اس کے لیے رکاوٹیں نہیں پیدا کی گئیں تو پاکستان کو پکڑنا مشکل ہوجائے گا۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز ہونے والی تقاریر خاص طور پر نواز شریف کی تقاریر پر سب سے زیادہ خوشی بھارت میں دکھائی دی اور وہاں کا میڈیا کہہ رہا ہے کہ نواز شریف کی سیاسی واپسی ہوگئی اور یہ واپسی ایسے ہوگئی کہ انہوں نے پاکستانی کی فوج پر حملہ کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے جن کامیابیوں کو حاصل کرنے کی بات کی وہ اس طرح ہورہی ہیں کہ پاکستان میں اس وقت ایک حکومت اور جمہوری نظام کام کر رہا ہے جہاں فوج اور سول قیادت مل کر ملک کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جہاں ایک دوسرے کو شک کی نظر سے نہیں دیکھا جارہا، جہاں سویلین حکومت ہرناکامی کی وجہ یہ نہیں بتارہی کہ ہمیں فوج کام نہیں کرنے دے رہی، چاہے کووڈ 19 کا مقابلہ ہوگا، ٹڈی دل کا معاملہ ہو، کراچی یا بلوچستان کا معاملہ ہو، فوج اور سویلین حکومت مل کر کام کر رہی ہیں، اس میں دو رائے نہیں کہ قیادت عمران خان کے پاس ہے اور فیصلے عمران خان کرتےہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اور پاکستان کے دشمن عناصر سمجھتے ہیں کہ اس نظام کو اگر چھیڑا نہیں گیا یا اس میں رکاوٹ نہیں ڈالی گئی تو، اگر پاکستان کی سیاسی قیادت اور فوج میں دراڑیں نہیں پیدا کی گئی اور ایسا کرنے میں وہ ناکام رہے تو پاکستان کو کامیابی سے نہیں روک سکتے۔
مزید پڑھیں:وزیراعظم عمران خان کسی کو بھی این آر او نہیں دیں گے، شبلی فراز
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز تقاریر میں جو فوج پر حملہ ہوا اس سے پہلے یہ تو سوچ لیتے کہ وہ آپریشن جو وزیرستان میں مسلم لیگ(ن) کے دور میں ہوا تھا اس میں شہادتیں فوج نے برداشت کیں اور وہ جنگ آج بھی دہشت گردی اور پاکستان دشمنوں کے خلاف ختم نہیں ہوئیں۔
دوران گفتگو ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 6 ہزار سے زائد فوجی شہید ہوئے جبکہ رواں سال کے ساڑھے 8 ماہ میں 150 سے زائد فوجی جوانوں کی شہادتیں ہوئیں، فوج کی کوئی ریجمنٹ ایسی نہیں جس نے شہید نہ اٹھائے ہوں، اس فوج پر جاکر حملے کر رہے ہیں اور یہ بیانیہ کس سے مل رہا ہے میں نے بتا دیا۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا یہ کوئی نیا کام نہیں ہے، بنیادی طور پر نواز شریف کا طرز عمل بڑا سادہ سا ہے، اگر ادارہ نواز شریف کے مکمل قابو میں نہیں ہے تو ان کی اس سے جنگ ہے اور اس وقت فوج ان کے کنٹرول میں نہیں ہے اس پر حملے آپ نے دیکھ لیا، اس کے علاوہ عدلیہ ان کے مکمل تابع نہیں ہے جبکہ عدلیہ نے ان کے لیے وہ فیصلہ کیا جو پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا اور انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر باہر جانے کی اجازت دی لیکن انہوں نے عدلیہ کو بھی نہیں چھوڑا۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ یعنی کوئی بھی فیصلہ جو ان کے خلاف ہو تو عدلیہ انصاف نہیں دے رہی، انہوں نے کمال کی بات کی کہ پاکستان میں کوئی شفاف انتخابات نہیں ہوئے لیکن یہ 3 مرتبہ وزیراعظم بنے تو کیا یہ اقبال جرم کر رہے ہیں۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے نیب پر حملے کیے جبکہ اس کا چیئرمین انہوں نے خود لگایا تھا، انہوں نے کسی ادارے کو نہیں چھوڑا، جو قانون نواز شریف کے آڑے آتا ہے اسے ختم کردیا جائے جبکہ جو ادارہ قانون اور آئین کی بنیاد پر کام کیا جائے اسے تباہ کردیا جائے۔
میڈیا کو پاکستان کی تاریخ میں ایسی آزادی نہیں ملی، فواد چوہدری
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 'وزارت اطلاعات نے نئی روایات ڈالی حالانکہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق نواز شریف کی تقریرمیڈیا میں دکھانا غیر قانونی ہوجاتا لیکن انہوں نے وزیراعظم کے ساتھ مل کر نیا آغاز کیا'۔
انہوں نے کہا کہ 'میڈیا کو اپوزیشن کی کوریج کے لیے آج جنتی آزادی حاصل ہوئی ہے وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں تھی'۔
اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'کل ابو بچاؤ کانفرنس ختم ہوئی، جس کا بنیادی نکتہ تھا کہ اگر عدلیہ اور فوج ہمارے ساتھ ہیں تو ان سے اچھا کوئی ادارہ نہیں ہے، اگر عوام نے ان کو باہر نکالا اور عمران خان کی قیادت میں نواز شریف کی حکومت سے جان چھڑائی، اگر فوج اور عدلیہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں وہ بہت خراب ہیں'۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ 'نواز شریف کی تقریر میں فوج، عدلیہ اورنیب بہت بری ہے، پاکستان میں سب کچھ برا ہے اسی لیے تو آپ لندن میں بیٹھے ہیں'۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کی تاریخ کے یہ واحد لیڈر ہوں گے جو لندن میں مے فیئر کے مہنگے ترین اپارٹمنٹ میں بیٹھ کر لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ آپ باہر نکل آئیں یہ نواز شریف کا قوم اور ہم سے مذاق ہے'۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی غلطی مان لینی چاہیے اور وہ غلطی یہ تھی کہ ہم نے جس طرح وہ باہر گئے ہیں، جانے دیا لیکن ہم نے 7 ارب کا بونڈ رکھوانے کی کوشش کی، ہمیں پتہ تھا کہ یہ واپس نہیں آئیں گے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ 'کل کی تقریر سے ایسا لگتا ہے کہ انہیں بولنے کی بیماری الزائمر ہوگئی ہے اور انہیں یاد نہیں رہا جس طرح سیاست سے اٹھیں ہیں اور 1979 میں تحریک استقلال کے ٹکٹ میں نواز شریف گوالمندی سے کونسلر کا الیکشن ہار گئے تھے'۔
انہوں نے کہا کہ جنرل جیلانی نے 1983 میں نوجوان نواز شریف کو اپنا کھیل کا مشیر بنایا اور 1985 میں ان کو وزیرخزانہ لگایا جس کے بعد ضیاالحق صاحب وہاں تشریف لے گئے اور کہا کہ نواز شریف کا قلعہ مضبوط ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف کی واحد حکومت ہے جس کو 58 ٹوبی کے تحت ختم کیا گیا لیکن عدلیہ نے بحال کردیا، جس کوبینظیر بھٹو شہید کہتی تھیں یہ چمک کا نتیجہ ہے۔
'نواز شریف کی کسی ادارے سے نہیں بنی'
ان کا کہنا تھا کہ 'نواز شریف کی فوج کے ساتھ کسی ایک فرد سے لڑائی نہیں ہے بلکہ امیرالمومنین بننے کا سودا دماغ میں چھایا ہوا ہے، ان کی کبھی فوج سے نہیں بنی، کسی آرمی چیف سے نہیں بنی، جنرل آصف نواز ہوں، جنرل جہانگیر کرامت یا پھر جنرل پرویز مشرف یا کوئی اور فوج کا چیف ہوں یا فوج کے ادارے سے ان کی نہیں بنی'۔
مزید پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا پڑے گا، بلاول بھٹو زرداری
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے کہا کہ 'کیونکہ جب یہاں سے پیسے کماتے ہیں اور باہر لے کر جاتے ہیں تو آپ چاہتے ہیں ادارے اس کا تحفظ کریں لیکن ادارے اس کا تحفظ نہیں کریں گے'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمیں فوج اور عدلیہ سے کوئی گلہ نہیں ہے، عدلیہ میں روزانہ ہمارے اوپر ریمارکس آتے ہیں، ہر کابینہ اجلاس میں کہتے ہیں کہ عدلیہ کے جو ریمارکس آتے ہیں ان کو سنیں کیونکہ ہم اداروں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اپوزیشن کس منہ سے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کا کہہ رہے ہیں، ہم آپ کی بھیک سے نہیں آئے ہیں، پاکستان کے عوام نے عمران خان کو وزیراعظم بنایا ہے اور 2023 میں عوام کے سامنے ہوں گے'۔
اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'ابھی جھگڑا یہ ہے کہ کسی طرح مریم بی بی کو لندن بھیجیں، جبکہ وزیراعظم نے کہا کہ ہم اپوزیشن سے ہر معاملے پر بات کرنے کو تیار ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'جھگڑا یہ ہے کہ اپوزیشن کہتی ہے آپ ہمیں کیسز میں نرمی کریں، اگر آپ نرمی نہیں کریں گے تو ہم آپ کے خلاف ہیں اور آپ سے استعفے مانگتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'ملک میں جمہوریت کے خلاف ہر سازش میں نواز شریف اور ان کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) ان سازشوں کا لازمی جزو رہی ہیں، عدلیہ کے خلاف جو سازشیں ہوئی ہیں اس کا بھی وہ ساتھ رہے ہیں'۔
فواد چوہدری نے کہا کہ 'نواز شریف کی تقریر پر بھارت میں جشن منایا جارہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ بیانیہ پاکستان کے اندر نہیں بلکہ پاکستان کے باہر بنایا جارہا ہے اور اس کو کئی قوتوں کی حمایت حاصل رہی ہے کیونکہ اداروں پر متنازع کرتے ہیں دشمن خوش ہوتے ہیں، اس سے ریاست متنازع ہوتی ہے اور نواز شریف اسی پر چل رہے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اے پی سی میں جو دیگر جماعتیں تھیں، انہیں میں یاد دلاؤں کہ 2002 میں نواز شریف جب کلثوم نواز تحریک چلارہی تھیں تو ایک طرف بینظیر بھٹو اور دوسری طرف حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے جارہے تھے'۔
انہوں نے کہا کہ 'انہوں نے عدلیہ کو متنازع کیا ہے حالانکہ عدلیہ نے اس کے حق میں سب سے زیادہ فیصلے دیے 08-2007 میں نواز شریف 8 سال بعد پاکستان آئے تو سپریم کورٹ نے پھر بھی مقدمہ سنا، اس سے پہلے اتفاق گروپ اور حدیبیہ میں غیرمعمولی طور پر نرمی دکھائی گئی'۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ 'وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو پاکستان کے عوام نے منتخب کیے اور ان کو ہٹانے کا حق صرف پاکستان کے عوام کے پاس ہے'۔
اے پی سی میں ناامیدی کی گردان دہرائی گئی، شاہ محمود قریشی
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'کل کا اجلاس اس سے مجھے مایوسی کا اظہار دکھائی اور ناامیدی کی گردان دہرائی گئی اور تضادات کا مجموعہ ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سب سے زیادہ شادیانے آپ کے پڑوس میں بجائے گئے کیونکہ اس ادارے کو نشانہ بنایا گیا جس ادارے سے وہ خائف ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس ادارے نے پاکستان کی سلامتی کے لیے اپنا خون دیا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'پاکستان میں دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے ان اداروں نے جو کردار ادا کیا ہے آج دنیا اس کی تعریف کررہی ہے'۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'بہت سی امید لگا رکھی تھی کہ ہم نے معیشت کو اتنا دیوالیہ کردیا ہے کہ وہ چل نہیں پائیں گے اور وسائل کا خلا 20 ارب چھوڑ کر گئے اور دوست ممالک نے آڑھے وقت میں ساتھ دیا اور آئی ایم ایف کے قرض کے باعث ہم اس سے نکل آئے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'انہوں نے جانے سے پہلے ایسے مالی اعلانات کیے جس سے نئی حکومت کو باہر نکلنا مشکل تھا لیکن اب آہستہ آہستہ باہر آرہا ہے، کووڈکے چیلنج کے باوجود معاشی اشاریے مثبت ہورہے ہیں'۔
انہوں نے کہ 'دوسری بات انہیں دھرنے سے امید تھی جو تتربتر ہوگیا، دنیا اب بھی کہہ رہی ہے کووڈ کا چیلنج ختم نہیں ہوا، ماہرین کہتے ہیں کہ سردیوں میں کووڈ کی نئی لہر آسکتی ہے'۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ 'جو لوگ سخت لاک ڈاؤن کا درس دیتے تھے وہ آج کہتے ہیں کہ ہم جنوری اور دسمبر میں احتجاج کریں گے، جلسے جلوس کریں جو ایک تضاد ہے'۔
'اپوزیشن کو مشترکہ اجلاس میں سبکی ہوئی'
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کو یقین کامل تھا کہ حکومت کے پاس سینیٹ میں اکثریت نہیں ہے اس لیے انہیں ایف اے ٹی ایف میں قانون سازی کرنی ہے تو ہمارے پاس آنا ہوگا اور ہم بھارت کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے ان کے پاس گئے'۔
انہوں نے کہا کہ 'مشترکہ اجلاس میں انہیں جو سبکی ہوئی ہے اس کا ذمہ دار ہم نہیں ہیں، انہیں اپنے اندر ٹٹولنا ہوگا، کمروں کے اندر جو باتیں ہوتی ہیں وہ باہر نہیں کی جاتی اور یہ بھی ایک تضاد ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کا خیال تھا کہ حکومت پھنسی ہوئی اس لیے ان کو نچوڑنا کا یہی وقت ہے اور 34 نکات دیے، اس وقت این آر او نیب کو لپیٹنا ہے اور ان کی مراد اور مقصد نیب کو لپیٹنا تھا'۔
وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ 'جب انہیں واضح ہوگیا کہ عمران خان اس پر کسی صورت تیار نہیں ہوں تو انہوں نے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کی'۔
اپوزیشن پر این آر او مانگنے الزامات ہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'دوسری بات وقت کا چناؤ ہے، وہ اس لیے کہ حکومت کو دو سال کے بعد یک لخت نیا جوبن اور ابھار کی وجہ یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر قائل ہوچکے ہیں کہ انہیں نیب اور این آر او میں جو رعایت درکار تھی اور جس کے وہ طالب تھے وہ نہیں ملے گی'۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مقدمات کو جتنا لٹکا سکتے تھے لٹکاتے رہے لیکن اب وہ منطقی انجام کے قریب ہیں اور اب منطقی انجام کو پہنچتے ہیں تو مشکلات میں اضافہ ہوا اور اس کا اظہار ہوا'۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ 'انہوں نے افغانستان میں ناکامی کا ذکر کیا حالانکہ پوری دنیا جو پاکستان پر نکتہ چینی کرتی تھی وہ معترف ہے کہ پاکستان نے امن کے عمل میں مصالحت کار کا کردار ادا کیا ہے اور ناقدین کو نہ چاہتے ہوئے تعریف کرنی پڑی'۔
انہوں نے کہا کہ 'امن معاہدہ ہوا، سیاسی مذاکرات عمران خان اورپی ٹی آئی کا مؤقف تھا لیکن دنیا نہیں مانتی تھی پر 29 فروری کو دوحہ میں امن معاہدہ ہوا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'مخالفین نے اپنا کام بھی کیا لیکن اس کے باوجود امن عمل جاری رہا، قیدی رہا ہوئے اور بین الافغان امن عمل شروع ہوگیا ہے اور طے ہوا ہے کہ ہمارے جو مسائل ہیں اس کے لیے اپنے میکنزم کو عمل میں لائیں گے'۔
اپوزیشن کی اے پی سی کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے اور اس کو کامیابی کہتے ہیں۔
'ایک وقت تھا وزارت خارجہ میں لفظ کے پر پابندی تھی'
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'کشمیر کے معاملے پر بھی بات کی گئی حالانکہ یہ کتنے عرصے تک حکومت میں رہے اور کشمیر کے مسئلے کو کتنی شد ومد سے اٹھایا اور کہاں کہاں اٹھایا جبکہ عمران خان نے کس مؤثر انداز میں جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مقدمہ پیش کیا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان نے انسانی حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے انسانی حقوق کونسل، او آئی سی کے رابطہ گروپ اور مختلف فورمز پر اس مسئلے کو اٹھایا'۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ 'وزارت خارجہ میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ لفظ کے پر پابندی تھی، ذکر نہیں کیا جاتا تھا کہ لوگ نالاں نہ ہوجائیں اور آج وہ یہ کہیں کہ اس پر انہیں تشویش ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'جب یہ مسئلہ عروج پر تھا تو اس سے توجہ کس نے ہٹائی، ہم نے نہیں ہٹائی، اگر کشمیر کی پالیسی پر اعتراض ہے تو متفقہ قرار دادوں کا حصہ رہے ہیں اور اسی اسمبلی میں کشمیر سے متعلق حکومتی قرار دادوں کا آپ حصہ بنے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر آپ نے ان پر اتفاق اور متقفہ قراردادیں منظور ہوئیں تو پھر آپ نے اتفاق کیا'۔
پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پر اپوزیشن کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'اپوزیشن کہتی ہے کہ سی پیک کو رول بیک کیا گیا، جس ملک کے ساتھ ہم کام کررہے ہیں وہ مطمئن ہیں، وہ نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے'۔
شاہ محمود قریشی نے چین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'انہوں نے اس حکومت کے ساتھ دوسرے مرحلے کا معاہدہ کیا ہے اور اپنی حتمی نتیجے کو پہنچیں گے'۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت کا درد آج دکھائی دے رہا ہے وہ جمہوریت کا نہیں ہے، ملک سے زیادہ ذات کا درد زیادہ ہے، پاکستان کے لوگ باشعور ہیں، ان کی گفتگو بھی سنی ہے اور ہمارے بھی سن رہے ہیں اور ترازو میں تول کر فیصلہ کریں گے اور امید ہے ہمارے حق میں فیصلہ کریں گے۔