طبی تنظیموں کی پاکستان میڈیکل کمیشن بل پر تنقید
اسلام آباد: متعدد میڈیکل تنظیموں کے نمائندوں نے حال ہی میں منظور ہونے والے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کو فیس مقرر کرنے اور طلبہ کو داخلے دینے کا لا محدود اختیار دیتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین صحت کی نمائندہ تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے کہا کہ یہ اقدام میڈیکل کی تعلیم کا معیار خراب کردے گا اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ڈی ایم سی) کے خاتمے کے بعد بیرونِ ملک کام کرنے والے ڈاکٹروں کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹیٹیوشنز (پی اے ایم آئی) بظاہر بل سے مطمئن نظر آئی لیکن دعویٰ کیا کہ ہاؤس جاب کے لیے معاوضے کی ادائیگی کے فیصلے کی وجہ سے ان کے پاس فیس بڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ نے پی ایم ڈی سی کو چلانے کیلئے 11 رکنی ایڈہاک کونسل قائم کردی
تاہم وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ ایک وہ وقت تھا کہ جب میڈیکل اور ڈینٹل اداروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا اور حکومت صرف ایگزٹ امتحان کے ذریعے گریجویٹس کا جائزہ لیتی تھی، لیکن اب کوئی گریجویٹ بغیر ایگزٹ امتحان پاس کیے پریکٹس نہیں کرسکے گا۔
گزشتہ ہفتے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ 2020 منظور کیا گیا تھا جس کے بعد یہ منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھجوایا دیا گیا، اس بل کے قانون بننے کے بعد پی ایم ڈی سی ختم ہوجائے گی اور اس کی جگہ پی ایم سی کام کرے گی۔
گزشتہ برس پی ایم سی آرڈیننس نافذ کیا گیا تھا جس میں نہ صرف پی ایم ڈی سی تحلیل ہوگئی تھی بلکہ کونسل کے 20 ملازمین کی ملازمت بھی ختم کردی گئی تھی تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے آرڈیننس کو کالعدم قرار دے کر ملازمین کو ان کے عہدوں پر بحال کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: پی ایم ڈی سی بحال، پاکستان میڈیکل کمیشن تحلیل کرنے کا حکم
ڈان کو دستیاب بل کے مسودے کے مطابق پاکستان میڈیکل کمیشن کے 3 اجزا ہوں گے، جس میں میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (ایم ڈی سی)، نیشنل میڈیکل اینڈ اکیڈمک بورڈ اور نیشنل میڈیکل اتھارٹی (این ایم اے) شامل ہیں۔
ایم ڈی سی میں 9 اراکین ہوں گے جس میں 3 کو وزیراعظم سول سوسائٹی سے نامزد کریں گے جس میں ایک قانونی ماہر، ایک چارٹر اکاؤنٹنٹ اور ایک ملک بھر میں فلاحی کاموں کے لیے معروف شخصیت ہوں گی۔
دیگر 3 اراکین میں لائسنس یافتہ میڈیکل پریکٹیشنرز ہوں گے جن کا کم از کم تجربہ 15 سال کا ہو، انہیں بھی وزیراعظم نامزد کریں گے تاہم کوئی موجودہ وائس چانسلر، ڈین، پرنسپل یا ایڈمنسٹریٹر کے علاوہ میڈیکل یا ڈینٹل یونیورسٹی، کالج یا ہسپتال کے شیئر ہولڈرز یا مالک اس کے اہل نہیں ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس نافذ، پی ایم ڈی سی کو تحلیل کردیا گیا
دیگر 3 اراکین میں ایک 15 سالہ تجربے کے حامل ہو بہتری صلاحیتوں رکھنے والے لائسنس یافتہ ڈینٹسٹ، آرمڈ فورسز میڈیکل سروسز کے سرجن جنرل یا ان کے نمائندہ اور وفاقی سیکریٹری صحت ہوں گے۔
بل کے مطابق مرکزی داخلہ پالیسی ختم کردی جائے گی جسے ماضی میں اس لیے متعارف کروایا گیا تھا تا کہ طلبہ کو میرٹ پر داخلہ ملے اور میڈیکل اور ڈینٹل کالج کو اپنی داخلہ پالیسی مرتب کرنے کا اختیار ہوگا۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے پی ایم اے کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا کہ 'یہ بل کالجز کو اپنی من مانی فیس وصول کرنے اور اداروں کو بغیر مناسب آلات اور فیکلٹی کے چلانے کا اختیار دے گا، چونکہ کالجز کو جامعات سے منسلک ہونے کی اجازت دی گئی ہے اس لیے وہ جامعات کی نہیں سنیں گے اور اپنی مرضی کی انسپیکشن کروائیں گے'۔