• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

سرینا عیسٰی کا ساڑھے 3 کروڑ روپے ٹیکس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار

شائع September 19, 2020
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ایک کراچی کا افسر ہی ان کے ٹیکس معاملات دیکھ سکتا ہے —فائل فوٹو: اسکرین شاٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ایک کراچی کا افسر ہی ان کے ٹیکس معاملات دیکھ سکتا ہے —فائل فوٹو: اسکرین شاٹ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ساڑھے 3 کروڑ روپے کے ٹیکس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف بی آر کے مراسلے کے جواب میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنا مؤقف نہ سنے جانے کی مذمت کرتی ہیں اور اس حکم کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

سرینا عیسیٰ نے اپنے خط میں الزام عائد کیا کہ وزیراعظم عمران خان کی ٹیم جس میں وزیر قانونی فروغ نسیم، مشیر داخلہ و احتساب مرزا شہزاد اکبر سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان، 'غیر آزاد' ایف بی آر سے محمد اشفاق اور ذوالفقار احمد شامل ہیں ان کے ساتھ ساتھ شکایت کنندہ نے ایک دوسرے کے تعاون سے ان کے خلاف جھوٹا کیس تیار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا ایف بی آر افسران پر 'ہدایات' پر عمل کرنے کا الزام

انہوں نے کہا کہ شہزاد اکبر نے ایک نجی تنظیم اثاثہ برآمدگی یونٹ بنائی اور اس کی سربراہی بھی کرتے ہیں جس میں اس کے رکن کی حیثیت سے اشفاق احمد کو تعینات کیا گیا۔

سرینا عیسٰی کا کہنا تھا کہ ان افراد نے ایف بی آر کے ذوالفقار احمد کو ایک روز میں میرے اور میرے شوہر کے خلاف رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی جو انہوں نے کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کہ ایف بی آر کی سابق چیئر پرسن نوشین امجد کو ہٹا کر ایک منتخب افسر کو تعینات کیا گیا یہ اقدام سپریم کورٹ کے 19 جون کے حکم کے فوری بعد 4 جولائی کو اٹھایا گیا۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے وزیر اعظم ودیگر کی انکم ٹیکس تفصیلات مانگ لی

ان کے بیان میں کہا گیا کہ 'ایف بی آر کے تمام کمشنرز میں سے وزیراعظم کی ٹیم نے جن کا انتخاب کیا وہ ذوالفقار احمد تھے جو پہلے ہی 10 مئی 2019 کو میرے اور میرے شوہر کے خلاف رائے دے چکے تھے۔

سرینا عیسٰی نے کہا کہ ان کے کیس میں یہ افسر قانونی اور زمینی دائرہ اختیار نہیں رکھتے کیوں کہ انہوں نے ہمیشہ ٹیکس ریٹرنز کراچی میں فائل کیے ہیں اور ایک کراچی کا افسر ہی ان کے ٹیکس معاملات دیکھ سکتا ہے۔

ایف بی آر کے حکم نامے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذکورہ افسر نے لکھا کہ میں نے 25 جون 202 کو نوٹس وصول کرنے سے انکار کردیا جس دن میرے والد کا انتقال ہوا اور ساتھ ہی میرے شوہر کی تذلیل کے لیے نوٹس جسٹس قاضی عیسیٰ کو بھی نوٹس بھجوایا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ایف بی آر میں تحریری جوابات جمع کرادیے

انہوں نے کہا کہ جس ٹیکس کنسلٹنٹ سے انہوں نے رابطہ کیا اسے بھی ڈرانے کی کوشش کی گئی اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے شوہر کو دی گئی دھمکیاں 'محض اتفاق نہیں ہوسکتیں'۔

اپنے خط میں سرینا عیسیٰ نے یہ بھی کہا کہ ان کا مؤقف ایک مرتبہ بھی نہیں سنا گیا اور حکم جاری کردیا گیا، 'ذوالفقار احمد نے یہ نہیں بتایا کہ کیا وہ تمام کیسز کا فیصلہ ٹیکس دہندگان کو سنے بغیر کرتے ہیں یا یہ خاص طریقہ ان کے لیے جنہوں نے کسی جج سے شادی کی ہو اور ایک ایسے جج سے جسے عمران خان کی حکومت ہٹانے کی متمنی ہو'۔

بیان میں کہا گیا کہ وہ ایف بی آر کے حکم نامے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں کیوں کہ انکوائری کے دوران انہیں فراہم کیے گئے تمام شواہد نظر انداز کیے گئے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024