• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

بحریہ ٹاؤن نے ادائیگی کے شیڈول میں توسیع کی درخواست واپس لے لی

شائع September 17, 2020 اپ ڈیٹ October 20, 2020
بحریہ ٹاؤن کراچی—فوٹو: بشکریہ بحریہ ٹاؤن
بحریہ ٹاؤن کراچی—فوٹو: بشکریہ بحریہ ٹاؤن

اسلام آباد: بحریہ ٹاون پرائیویٹ لمیٹڈ کراچی نے 460 ارب روپے کی ادائیگی کے لیے ماہانہ ڈھائی ارب روپے کی ادائیگی کے شیڈول میں توسیع کی درخواست واپس لے لی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی جس میں کہا گیا کہ عدالت اس طرح کی دخواستوں کو قبل از وقت ہونے کی وجہ سے مسترد کررہی تھی جس پر سینئر وکیل بیرسٹر سید علی ظفر نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے درخواست واپس لے لی۔

بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے ادائیگی کے شیڈول میں توسیع اور سندھ حکومت کی جانب سے لیز کے حقوق دینے کی درخواست کی گئی تھی کیوں کہ اسے یہ حقوق اپنے الاٹیز کو دینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی میں منظور شدہ پلان کے خلاف تعمیرات روکنے کا حکم

خیال رہے کہ 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ کے عملدرآمد بینچ نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) میں 16 ہزار 896 ایکٹر رقبہ اراضی کی خریداری کے لیے 460 ارب روپے کی پیش کش کو کچھ شرائط و ضوابط کے ساتھ قبول کیا تھا۔

فیصلے میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ زمین انکریمنٹ ہاؤسنگ اسکیم شروع کرنے کے لیے دی گئی تھی تاہم ایم ڈی اے نے اسے بحریہ ٹاؤن کی اسکیم کے ساتھ بدل دیا تاکہ وہ اپنی اسکیم شروع کرسکے۔

چنانچہ درخواست کی سماعت میں بیرسٹر ظفر نے اپنے دلائل کا آغاز یہ کہتے ہوئے کیا کہ وہ مایوسی کے عالم میں مدت میں توسیع کی درخواست کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کووِڈ 19نے معاشی نمو کو متاثر کیا ہے حتیٰ کہ حکومت نے بھی ادائیگیوں کے شیڈول میں قانونی مہلت دی ہے اور بحریہ ٹاؤن منصوبوں میں کوئی فروخت نہیں ہوئی بلکہ تعمیراتی سرگرمیاں بھی رک گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن نے لیز کے حقوق کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دراصل وکیل عملدرآمد بینچ سے اپنے 21 مارچ کے حکم پر نظرِ ثانی کا کہہ رہے ہیں جو وہ نہیں کرسکتا۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ایک مرتبہ جب بینچ نے 4 مئی 2018 کے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کیا جس کے بعد سے حکم نافذ ہوگیا تھا ہمیں اپنے پہلے کے حکم کی حدود میں رہنا پڑے گا۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کووِڈ 19 نے دنیا بھر میں لوگوں کو متاثر کیا ہے اور انہیں اب اس کے مطابق زندگی گزارتی ہے، محض اس لیے ایکسٹینشن نہیں دی جاسکتی کہ اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی یا سیلاب آگیا یا کوئی اور ہنگامی صورتحال پیش آگئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ بینکس کاروباری حکمتوں کی وجہ سے ادائیگیوں کو دوبارہ شیڈول کررہے ہیں لیکن یہاں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کی بات ہے جس میں بحریہ ٹاؤن نے 4 کھرب 60 ارب روپے جمع کروانے کی ضمانت دی تھی۔

مزید پڑھیں:ڈان تحقیقات: بحریہ ٹاؤن و دیگر کی بے لگام لالچ

جسٹس منیب اختر نے بھی کہا کہ بحریہ ٹاؤن کو انتخاب کرنے کا موقع دیا گیا تھا جس کے بعد وہ ادائیگیوں کے شیڈول پر رضامند ہوا تھا اس لیے اب ڈیولپر اس پوزیشن میں نہیں کہ مزید کچھ طلب کر سکے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر عدالت اپنے حکم میں تبدیلی کرے گی تو اس سے غلط مثال قائم ہوگی، ساتھ ہی انہوں نے ڈیولپر کی جانب سے ہر ماہ ڈھائی ارب روپے جمع کروانے کا وعدہ یاد دلاتے ہوئے کہا کہ عدالت سزا اور فیصلے کے الفاظ میں تبدیلی نہیں کرسکتی'۔

جسٹس فیصل نے کہا کہ آج کے روز درخواستیں قبل از وقت ہیں اس لیے عدالت انہیں مسترد کررہی ہے تاہم وکیل نے درخواست کی کہ انہیں درخواست واپس لینے کی اجازت دی جائے جس پر عدالت نے یہ درخواست قبول کرلی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024