• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

شائع September 15, 2020
نواز شریف نے سرینڈر کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی — فائل/فوٹو: ڈان نیوز
نواز شریف نے سرینڈر کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی — فائل/فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی حاضری سے استثنی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے سرینڈر کرنے، قانونی نمائندے کے ذریعے اپیل کی سماعت اور حاضری سے مستثنیٰ کے لیے دائر تین درخواستوں کی سماعت کی۔

جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل عدالت کے دو رکنی بینچ نے نمائندے کے ذریعے اپیلوں کی پیروی کی درخواست بھی مسترد کی اور مفرور قرار دینے کی کارروائی شروع کردی گئی۔

مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف نے سرنڈر کی شرط 'ختم' کرنے کی استدعا کردی

عدالت نے اس سے قبل سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیل پر سماعت شروع ہوئی تو نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سے جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ یہ درخواست کیوں دائر کی گئی، ابھی تو ہم نے طے کرنا ہے کہ کیا نواز شریف کی درخواست سنی بھی جا سکتی ہے یا نہیں۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ یہ درخواست احتیاطی طور پر دائر کی گئی جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر نواز شریف کی درخواستیں قابل سماعت قرار دیں تو اس کو سنیں گے۔

عدالت نے پہلے نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر سماعت کا فیصلہ کیا اور جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پریس میں ایک بات غلط رپورٹ ہوئی کہ اپیلوں پر سماعت کی بات کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی ہم صرف نواز شریف کی متفرق درخواستوں پر سماعت کی بات کر رہے ہیں۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ نواز شریف کی ایون فیلڈ ریفرنس میں ضمانت منسوخ کی جائے۔

عدالت نے نواز شریف کے وکیل سے دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے پوچھا کہ بتائیں کیا اشتہاری ہوتے ہوئے نواز شریف کی اپیل سنی جا سکتی ہے؟

پرویز مشرف کے اشتہاری ہونے کے باوجود سماعت ہوئی، خواجہ حارث

خواجہ حارث نے پرویز مشرف کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے پرویز مشرف کے اثاثوں کی چھان بین کی درخواست دی تو پرویز مشرف کے وکیل کو پیش ہونے کی اجازت دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ غیر معمولی حالات میں وکیل کو پیش ہونے کی اجازت دی جا سکتی ہے، سنگین غداری کیس میں بھی پرویز مشرف کے اشتہاری ہونے کے باوجود ٹرائل چلایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا نواز شریف کو 10ستمبر سے قبل 'سرنڈر' کرنے کا حکم

جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ حیات بخش کیس کا اسٹیٹس کیا ہے، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ حیات بخش سپریم کورٹ آف پاکستان کے 1981 کا کیس ہے، اس کیس میں سپریم کورٹ نے اشتہاری شخص کے لیے طریقہ کار وضع کیا تھا۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ قانون کے مطابق سنگین غداری کیس بھی زیر التوا نہیں رکھا جا سکتا، خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی عدم موجودگی پر سنگین غداری کیس کا ٹرائل چلایا اور فیصلہ سنا دیا۔

انہوں نے کہا کہ ملزم کے پیش نہ ہونے کا جواز بنا کر ٹرائل کو روکا نہیں جا سکتا، عدالت ملزم کے لیے سرکاری وکیل مقرر کر کے ٹرائل آگے بڑھائے گی۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ مشرف کیس میں سوال یہ تھا کیا اشتہاری اپنا وکیل مقرر کر سکتا ہے، کیا مشرف اشتہاری ہوتے ہوئے کوئی درخواست دائر کر سکتا ہے جبکہ یہاں تو ہماری درخواست بھی پہلے دائر ہوئی اور وکیل بھی پہلے سے موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک کیس میں تو اشتہاری ہوتے ہوئے بھی مشرف کو سنا جس پر عدالت نے کہا کہ کیا آپ کے دیے گئے حوالے یہاں قابل قبول ہیں، یہاں تو ہم ایک کریمنل کیس سن رہے ہیں جس میں آپ استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ میں العزیزیہ کیس میں استثنی نہیں مانگ رہا ہوں، جبکہ عدالت نے کہا کہ آپ کی درخواستوں میں تو یہی لکھا ہوا ہے۔

عدالت نے وکیل سے کہا کہ اب وہ غیر معمولی حالات بتا دیں جو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے کیس میں لاگو ہوتے ہیں، جواب میں خواجہ حارث نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ نے مفرور ملزم کی درخواست کو مختلف وجوہات کی بنا پر سنا اور نواز شریف کا کیس بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔

مزید پڑھیں: ڈاکٹروں نے اجازت دی تو پہلی پرواز سے پاکستان واپس آجاؤں گا، نواز شریف

خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف نے بھی سزا کے بعد جیل میں قید کاٹی اور اپیل دائر کی اور اس دوران انہوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے مختلف مقدمات کے حوالہ جات پیش کیے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ نے جس کیس کا حوالہ دیا اس میں تو ملزم جیل توڑ کر مفرور ہوا تھا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو زیادہ سنگین جرم تھا جس میں مفرور ملزم کی اپیل کا میرٹ پر فیصلہ کیا گیا۔

عدالت نے کہا کہ جہاں نیب لا خاموش ہو وہاں ضابطہ فوجداری کا اطلاق ہوتا ہے، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ میں عدالت کو بتانا چاہتا ہوں کہ نواز شریف فی الحال عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔

عدالت نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ اپیلوں پر سماعت ملتوی کر دی جائے یا پھر نواز شریف کی غیر موجودگی میں ان پر سماعت کر لی جائے، خواجہ حارث نے کہا کہ جی، میری عدالت سے یہی استدعا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ہم نواز شریف کو مفرور بھی ڈیکلیئر کر دیں تب بھی اپیل تو سنی جائے گی۔

نواز شریف کی درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، نیب وکیل

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ نواز شریف کی جانب سے دائر درخواستیں ناقابل سماعت ہیں جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت بھی ختم ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب آرڈی نینس کے تحت مفرور ملزم کو تین سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے، عدالت کے پاس اختیار ہے کہ مفرور کی اپیل مسترد کر دے یا خود اس کے لیے وکیل مقرر کرے، قانون کے بھگوڑے کو ریلیف دینے سے انصاف کا نظام متاثر ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت سرینڈر کرنے کا موقع فراہم کر چکی ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ ابھی اس عدالت نے نواز شریف کو مفرور قرار نہیں دیا۔

نیب کے وکیل نے کہا کہ ملزم کے مفرور ہونے سے فیئر ٹرائل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، جس پر عدالت نے پوچھا کہ نیب کی اپیل کیسے سنی جائے گی، کیا ہم دوسرے فریق کو سنے بغیر اس پر فیصلہ کر سکتے ہیں۔

جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ اس کے لیے عدالت قانونی نمائندہ مقرر کر کے اسے سن سکتی ہے، جس پر ان کا کہنا تھا کہ پھر یہ اصول تو نواز شریف کی اپیلوں پر بھی لاگو ہو گا، وکیل نے کہا کہ وہ مفرور ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:نواز شریف علاج کیلئے ایئر ایمبولینس کے ذریعے لندن پہنچ گئے

اس موقع پر خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کے سامنے اس وقت کوئی بھی مفرور نہیں ہے، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا کہ ضمانت لے کر باہر جانے والے نے سرجری نہیں کرائی، نہ ہی اسپتال میں داخل ہوا اور ہمارا ضمانت کا حکم بھی ختم ہو چکا ہے جس کے اپنے اثرات ہیں۔

نواز شریف عدالت کی اجازت سے باہر گئے، خواجہ حارث

خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف مفرور نہیں، عدالت اور حکومت سے اجازت لے کر گئے، یہ بات درست ہے کہ نواز شریف کی ضمانت ختم ہو چکی ہے، اب صرف سوال یہ ہے کہ کیا وہ پاکستان واپس آنے کی پوزیشن میں ہیں یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف سے واپسی سے متعلق معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس عدالت سے باہر جانے کی اجازت نہیں مانگی گئی، ضمانت ایک مخصوص مدت کے لیے تھی اور شاید یہ بات لاہور ہائی کورٹ کو نہیں بتائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ نیب کی ذمہ داری تھی کہ لاہور ہائی کورٹ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم سے آگاہ کرتی کہ نواز شریف نے بیرون ملک جانے سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ سے اجازت نہیں لی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم لاہور ہائی کورٹ نے اختیار کے مطابق دیا، مسئلہ یہ ہے کہ العزیزیہ ریفرنس میں کسی اور عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے العزیزیہ کیس میں ضمانت میں توسیع کے لیے پنجاب حکومت سے رجوع کرنے کا کہا، عدالت کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی واپسی سے متعلق معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے جبکہ ہمارے سامنے صرف ایک سوال ہے کہ ضمانت دی تھی جو ختم ہو گئی، اب ہم کیا کریں۔

خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف لندن میں ہیں اور پاکستان واپس آنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ ڈاکٹروں نے انہیں سفر سے منع کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے واضح طور پر اپنی درخواست میں کہا ہے کہ وہ پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں، ڈاکٹروں نے سفر کی اجازت دی تو پہلی دستیاب پرواز سے واپس آ جائیں گے۔

مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس میں سزا کےخلاف نواز شریف کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف علاج کے لیے بیرون ملک گئے، علاج مکمل ہوگا تو واپس آئیں گے، نواز شریف بیمار ہیں جو میڈیکل رپورٹس میں واضح ہے۔

ہسپتال سے باہر ہی رہنا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں، عدالت

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جو میڈیکل سرٹیفکیٹس ہیں وہ ایک کنسلٹنٹ کی رائے ہے جو کسی ہسپتال کی طرف سے نہیں، ابھی تک کسی ہسپتال نے نہیں کہا کہ ہم کووڈ 19 کی وجہ سے نواز شریف کو داخل کر کے علاج نہیں کر پا رہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہسپتال سے باہر ہی رہنا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں، وہ پہلے بھی پاکستان میں ہسپتال میں داخل اور زیر علاج رہے ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ یہ ڈاکٹر شروع سے نواز شریف کی صحت دیکھ رہے ہیں اور علاج کر رہے ہیں، جن ہسپتالوں سے ٹیسٹ ہوئے ان کا ذکر ان میڈیکل رپورٹس میں موجود ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت تو ابھی تک یہاں کی میڈیکل رپورٹس پر شک کر رہی ہے، نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ مگر برطانوی ڈاکٹروں کی رپورٹس پر شک کا اظہار نہیں کیا گیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ابھی تک ان رپورٹس کی تصدیق ہی نہیں کروائی، نواز شریف میڈیکل کنڈیشن کی وجہ سے لندن میں پھنس گئے ہیں، وہ حکومتی میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر ایئر ایمبولینس کے ذریعے بیرون ملک گئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے پر نواز شریف کی حاضری سے استثنی، سرینڈر کرنے کے عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو بعد میں سنادیا گیا۔

نواز شریف، اہلخانہ کیخلاف ریفرنسز کا پس منظر

خیال رہے کہ العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایوین فیلڈ تینوں ریفرنسز 7 لاکھ 85 ہزار آفشور کمپنیوں سے متعلق پاناما پیپرز لیکس کا حصہ ہیں جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمٰی نے نواز شریف کو بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

جس پر 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو ایون فیلڈ ویفرنس میں اس وقت سزا سنادی تھی جب وہ برطانیہ میں کلثوم نواز کی تیمارداری کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کی سزا کے خلاف اپیلیں سماعت کیلئے مقرر

سزا کے بعد شریف خاندان کے اراکین پاکستان آئے جہاں انہیں قید کردیا گیا بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی۔

دوسری جانب نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں بھی سزا سنادی تھی، بعدازاں ایک خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو دباؤ پر سزا سنائی،جس پر جج کو ان کے غلط فعل پر عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔

گزشتہ برس اکتوبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 8 ہفتوں کے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اور اس میں توسیع کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم صوبائی حکومت نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024