‘ادیب برائے فروخت’
صاحبو، تم نے وہ خبر تو سنی ہوگی کہ ایک مفلس اور لاچار شخص نے غربت سے تنگ آکر اپنی اولاد کو فروخت کرنے کا اعلان کردیا۔
یہ کہانی کئی بار دہرائی گئی۔ بدنصیب شخص اپنے معصوم بچوں کو لیے، پلے کارڈ تھامے پریس کلب کے سامنے جا کھڑا ہوتا ہے۔ کیمرے چمکتے ہیں، تو اس کی مجبور آنکھیں مزید بجھ جاتی ہیں۔ فلیش لائٹ کی روشنی میں اس کی بے بسی کچھ اور عیاں ہوجاتی ہے۔
جون کی چلچلاتی دوپہر کراچی پریس کلب کے باہر کھڑے ایسے ہی ایک مظلوم کو دیکھ کر خیال گزرا کہ اگر کسی روز کوئی حالات کا ستایا، ناقدری سے تنگ ادیب ایسا ہی پلے کارڈ لیے کسی صحافتی تنظیم یا میڈیا ہاؤس کے سامنے جا کھڑا ہو، تو ‘ادیب برائے فروخت’ کے الفاظ کتنے افراد کو متوجہ کر پائیں گے؟ کتنی آنکھیں اس کی سمت اٹھیں گی؟ کتنے سوالات ذہنوں میں جنم لیں گے؟
مزید پڑھیے: عالمی ادب کے عظیم ناول
گو ہمارے ہاں چند ایسے ادیب گزرے ہیں، جنہیں سرکاری آشیرباد حاصل رہی، ریڈیو اور ٹی وی میں انہیں ملازمتیں ملیں، مگر اکثریت تو بہرحال بے حال رہی اور ادب ادھر گھاٹے کا سودا ثابت ہوا۔ جنہوں نے صرف لکھنے پڑھنے کو اپنی یافت کا ذریعہ بنایا، انہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ انتظار حسین اور تارڑ صاحب جیسی مثالیں کم ہیں، اور اب تو حالات دگرگوں۔
پہلی کتاب کی پہیلی
ایک چھوٹے موٹے صحافی اور معمولی ادیب ہونے کے وسیلے ہمیں اس قبیلے کے حالات کا علم ہے، جہاں جگہ جگہ ادیب، بالخصوص فکشن نگار کا استحصال ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پہلے تو وہ جان مار کر ادب تخلیق کرے (جو اس کا بنیادی اور اہم ترین فریضہ)، اور جب وہ یہ کر گزرے، تو اسے چھپوانے کے جتن کرے۔ جو گنتی کے بیسٹ سیلر مصنفین ہیں، ان کی کتابیں تو ناشر بخوشی چھاپ دیتے ہیں، مگر باقیوں کو ادھر اپنی محنت پر خود ہی ‘سرمایہ کاری’ کرنی پڑتی ہے۔ ناشر یا پرنٹر شریف ہے، تو کتاب ‘قابلِ برداشت’ لاگت میں چھپ جاتی ہے۔ ورنہ ایسوں کی کمی نہیں، جو آپ کی جیب سے خون پسینے کی کمائی کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیں۔
لیجیے، اپنے ہی پیسوں سے چھاپی ہوئی آپ کی اپنی کتاب تیار ہے۔ اسے اپنے بچوں کو دکھائیں، شیلف میں سجائیں، احباب میں تقسیم کریں، مگر فروخت کرنے کا خیال نکال دیں ذہن سے۔ بک سیلرز تھوڑی بہت کتابیں، 50 فیصد ڈسکاؤنٹ پر اگر رکھ بھی لیں گے، تو وہ کتب کب فروخت ہوں گی؟ ان کے پیسے کب ملیں گے؟ اس کی کوئی خبر نہیں۔
مزید پڑھیے: ’عہدِ کورونا‘ میں ہمارے ادیبوں کے گزرتے شب و روز
اچھا، آپ نے کتاب لکھ لی، چھپوا بھی لی، مگر سفر کہاں تمام ہوا صاحب؟ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ ایک آگ کا دریا اور ہے اور تیر کر جانا ہے۔ کتاب لکھنے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی خبر شائع ہو، تجزیے تبصرے کیے جائیں۔
اس کے لیے وہ اخبارات کا رخ کرتا ہے۔ مجھ جیسے صحافیوں کو کتاب کی اعزازی کاپی ارسال کرتا ہے، ڈاک خرچ بھی خود ہی برداشت کرتا ہے اور ہم کیا کرتے ہیں؟ کتابوں کے ڈھیر میں اسے رکھ کر بھول جاتے ہیں۔ وقت گزرتا جاتا ہے، ادیب کی بے چینی بڑھتی جاتی ہے۔ پہلے وہ تواتر سے فیس بک پر آپ کی پوسٹوں کو لائک کرتا ہے۔ پھر ڈرتے ڈرتے ایس ایم ایس کرکے یاددہانی کراتا ہے۔ آخر فون کرنے کی ‘گستاخی ‘ کرجاتا ہے۔ دو ڈھائی مہینے بعد کسی میگزین یا ویب سائٹ پر بالآخر مختصر سا تاثراتی تبصرہ شائع ہوجاتا ہے۔
اگر تھوڑی بہت جان پہچان ہے، یا پھر کسی نفیس شخص تک آپ کی کتاب پہنچ گئی، تو وہ کسی جریدے میں تبصرہ لکھ دے گا، اپنے خیالات کو بلاگ یا ولاگ کی شکل دے دے گا۔ آپ خوش نصیب ہوئے تو چند اخبارات، ویب سائٹس پر آپ کی کتاب کی خبریں لگ جائیں گی، ایک دو کالم لکھ دیے جائیں گے۔ کہانی ختم پیسہ ہضم۔
دوسری کتاب کا کرب
دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں، ان تلخ مراحل سے گزرنے کے بعد کیا وہ شخص، جسے ملازمت بھی کرنی ہے، گھر بھی دیکھنا ہے، حالات کا جبر بھی سہنا ہے، وہ دوبارہ کوئی کتاب لکھے گا؟ اور ایسی غلطی کر بھی بیٹھا، تو کیا اسے چھپوائے گا بھی؟
مزید پڑھیے: جب ایک اردو کے ادیب کو نوبیل ایوارڈ ملا
دوستو، اگر کوئی شخص ایسا کر گزرے، تو ہمیں اسے خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ وہ ادب سے اتنا مخلص ہے کہ نہ صرف اسے تخلیق کرتا ہے، بلکہ اس کی اشاعت اور ترویج کا اہتمام بھی خود ہی کرتا ہے، گو یہ اس کا بنیادی فریضہ نہیں۔ اور پھر تمام تر مایوسی کے باوجود، سرنگ کے دہانے پر روشنی کی امید لیے ایک اور کتاب شائع کرتا ہے۔
کیا ایسا شخص اس قابل نہیں کہ اس کا ذکر سنہری الفاظ میں ہو اور اس کے لیے ترانے لکھے جائیں؟ مجھے کہنے دیجیے کہ اردو کی کمزور معیشت اور بے قیمتی کے باوجود جو شخص یہ مراحل طے کرتا ہے، وہ ہمارے احترام، محبت اور خلوص کا حق دار ہے۔ یہاں تک کہ رعایت کا بھی۔ اسلحہ بردار نقاد، جو ان تخلیقات کا بے رحمانہ پوسٹ مارٹم کرتے ہیں، ان پر بھی لازم ہے کہ وہ اس شخص کی بے انت محنت کو پیش نظر رکھیں۔ رد کرنا آسان ہے صاحب، قبول کرنا مشکل۔
یہ تو ہوئی ادیب کی کہانی، اب چلتے ہیں اس سوال کی جانب، جو ہمیں عشروں سے پریشان کر رہا ہے۔
کیا اردو میں عالمی سطح کا ادب تخلیق ہوا؟
اس سوال کے جتنے بھی جوابات ہیں، وہ اندازے ہیں، مفروضے ہیں، تبصرے ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ بہت پرقوت ہوں، ممکن ہے، ان میں کچھ درست بھی ہوں، مگر سچ یہی ہے کہ انہیں خال خال ہی تجربے کی کسوٹی پر پرکھا گیا ہے۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ اردو ادب عالمی مارکیٹ کی جنس ہی نہیں، یہ عالمی ادب کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا، کوئی اسے پڑھنے میں دلچسپی نہیں لے گا، تو یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا ادب عالمی دنیا تک کبھی پہنچا بھی یا نہیں؟
کیا ہمیں اس بازار تک رسائی ملی؟ کیا کبھی اہتمام کیا گیا کہ دیگر زبانوں کے قارئین ہمارا ادب پڑھیں؟ ان کا جواب، بدقسمتی سے، نفی میں ہے۔
انگریزی عالمی زبان ہے، اگر ہمیں اپنا ادب باقی دنیا تک پہنچانا ہے، تو اسے انگریزی میں ڈھالنا ہوگا۔ گارسیا مارکیز اور میلان کنڈیرا بھی تو انگریزی میں ڈھل کر ہی ہم تک پہنچے۔ مگر ہم اپنا بہترین ادب انگریزی میں پیش کرنے میں ناکام رہے۔ قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین اور شمس الرحمٰن فاروقی جیسے نابغوں کو بھی اپنی تخلیقات کا خود ہی انگریزی میں ترجمہ کرنا پڑا۔ محمد عمر میمن جیسے چند افراد نے کوشش تو کی، مگر یہ انفرادی کوششوں سے حل ہونے والے معما نہیں۔ اس کے لیے حکومتی سطح پر، ایک طویل المدت منصوبے کی ضرورت۔
مزید پڑھیے: عالمی ادب کے 100 برس اور پاکستانی ادیب
حکومت اردو کی بہترین تخلیقات کا انتخاب کرے، موزوں ترین افراد سے ان کا ترجمہ کروائے اور پھر یہ اہتمام کرے کہ وہ مستند ناشروں کے ذریعے عالمی مارکیٹ تک جائیں اور رسائی پائیں۔ ان پر تبصرے ہوں۔ انتظار صاحب کی ‘مین بکر پرائز ‘ کے لیے نامزدگی تب ہی ممکن ہوئی، جب ان کا کام عالمی دنیا تک پہنچا۔
یہ بچگانہ خیال ذہن سے نکال دیں کہ اگر ہمارے ادب میں قوت ہوگی، تو وہ خود عالمی دنیا تک پہنچ جائے گا۔ اردو کی معیشت کمزور اور پھر ہماری غفلت کے باعث اس کی قدر مزید گری ہے۔ یہ انگریزی کا عہد ہے۔ ہمیں اپنی تخلیقات کو خود ہی انگریزی روپ دینا ہوگا۔ ایک بار جب یہ عالمی مارکیٹ میں پہنچ جائیں گی، دنیا کے دیگر ممالک میں بسنے والے قارئین کو میسر ہوں گی، صرف تب ہی فیصلہ کیا جاسکے گا کہ ہم نے کسی معیار کا ادب تخلیق کیا۔ ہماری کوئی حیثیت ہے، یا ہم بے حیثیت ہیں۔
اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے، نہ تو اردو کی معیشت مضبوط کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، نہ ہی اپنا ادب عالمی دنیا تک پہنچانے کے جتن کرتے ہیں، تو ادیب کے پاس یہی امکان رہ جاتا ہے کہ ایک بینر لیے پریس کلب کے باہر جا کھڑا ہو، جس پر درج ہو:
‘ادیب برائے فروخت!‘
تبصرے (4) بند ہیں