• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

موٹروے گینگ ریپ جیسے واقعات پر وزیراعظم غائب ہوجاتے ہیں، شہباز شریف

شائع September 14, 2020
شہباز شریف نے موٹروے واقعے پر ہاؤس کی کمیٹی بنانے کی تجویز دے دی—فوٹو:ڈان نیوز
شہباز شریف نے موٹروے واقعے پر ہاؤس کی کمیٹی بنانے کی تجویز دے دی—فوٹو:ڈان نیوز

قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی تجویز پر معمول کی کارروائی معطل کرکے لاہور-سیالکوٹ موٹروے گینگ ریپ کیس پر بحث کا فیصلہ کیا گیا جہاں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ اس واقعے کے بعد وزیراعظم غائب ہیں اور ایک لفظ تک نہیں کہا۔

اسپیکر اسد قیصر کی صدارت میں شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف بھی شریک ہوئے اور حالیہ بارشوں، سیلاب، دہشت گردی کے واقعات اور حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔

اسپیکر نے لاہور-سیالکوٹ موٹر وے واقعے پر بحث کروانے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ ہمارے ماتھے پر بدنما داغ ہے اور اس پر وقفہ سوالات کے بعد بحث شروع کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2020 منظور

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ پیپلز پارٹی بھی یہی چاہتی ہے کہ دیگر کارروائی معطل کر کے لاہور واقعے پر بات کی جائے۔

حکومت نے ملزم کو غائب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، شہباز شریف

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ اس واقعے سے سب کے سرشرم سے جھک گئے تاہم مقام شکر ہے کہ آج وہ ملزم گرفتار ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے خوف ناک اور دل کو دہلا دینے والے واقعات اور اس روش کو کیسے روکا جائے یہ اہم سوال ہے، مگر شومئی قسمت کہ اس سانحے پر پوری قوم سوگوار تھی تو حکومت وقت اس بحث میں الجھی ہوئی تھی اس موٹر وے کے اوپر کس کا کنٹرول ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ قوم کی ایک لاچار بیٹی کے اوپر ظلم ہوچکا تھا مگر حکومت کے ایوانوں اور ٹی وی کی اسکرینوں میں یہ بحث چل رہی تھی کہ یہ پنجاب حکومت کی کنٹرول میں نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہے اور اس طرح کے بیانات چل رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مجرم کو گرفتار کرنے کے لیے تمام توانائی صرف کرنے کے بجائے پولیس افسر نے کہا کہ یہ رات کو کیوں نکلیں، یہ کہا کہ پیٹرول نہیں تھا تو چیک کیوں نہیں کیا اور رات کے اندھیرے میں کیوں نکلی، کوئی بھی ذی شعور انسان اس طرح کی بات سوچ بھی نہیں سکتا۔

مزید پڑھیں:موٹروے ریپ کیس کا ایک ملزم گرفتار، اعتراف جرم کرلیا، وزیراعلیٰ پنجاب

ان کا کہنا تھا کہ ظلم رسیدہ بچی پر دست شفقت رکھنے کے بجائے پولیس افسر نے جو طعنہ زنی کی اس پر پوری قوم کے دل زخمی ہوگئے اور جنہوں نے اس کو لگوایا وہ سینہ تان کر اس کے ساتھ کھڑے تھے کہ ہم نے اس کو لگوایا جبکہ اس افسر سے متعلق ایجنسیز کی رپورٹس کہہ رہی تھیں یہ بندی کرپٹ ہے اور اس لائق نہیں کہ کوئی اہم ذمہ داری دی جائے لیکن ڈھٹائی کے ساتھ اس کو اہم مقام پر لگایا گیا۔

سی سی پی او لاہور پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مکافات عمل ہے کہ اس کی تعیناتی کے فوری بعد بدقسمت واقعہ سامنے آیا اور اس کا پول کھل گیا۔

عمران خان اور پی ٹی آئی نے قصور واقعے پر سیاست کی، شہباز شریف

شہباز شریف نے کہا کہ قصور میں زینب کے ساتھ واقعہ پیش آیا تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین نے قصور جا کر اس معاملے کو بدترین سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی اور اس کو سیاست کے لیے استعمال کیا گیا اور پی ٹی آئی کی قیادت کی کوشش تھی کہ اس کو خراب کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعے پر ہم نے کوئی سیاست نہیں کی اور بڑی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور اس بیٹی پر ظلم کو اپنا ظلم جانا۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ سوچنا ہوگا کہ روز اس طرح کے واقعات کیوں ہوتے ہیں، قصور میں زینب کے واقعے کے چند دنوں بعد خیبرپختونخوا میں بھی ایک بچی کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا اور لاہور کی فرانزک لیبارٹری کی مدد سے ملزم پکڑے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت عمران خان گلہ پھاڑ پھاڑ کر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کررہے تھے، اس واقعے پر مکمل غائب اور خاموش ہیں، ایک لفظ تک نہیں کہا اور وزیراعظم کا وطیرہ بن چکا ہے کہ جب قوم خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہے اور وزیراعظم کو تلاش کرتی ہے تو وہ اچانک غائب ہوجاتے ہیں اور خاموش ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی عہدیداروں نے ملزم کو بھاگنے کا موقع دینے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن اللہ کا شکر ہے آج ایک تو گرفتار ہو گیا ہے، حکومت کی غفلت کا اس طرح کا مظاہرہ بہت کم دیکھا گیا ہے۔

موٹروے واقعے کی انکوائری کے لیے ہاؤس کمیٹی بنائی جائے، قائد حزب اختلاف

لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر پولیس کی تعیناتی میں تاخیر پر ان کا کہنا تھا کہ جب آئی جی پنجاب نے جولائی میں حکومت سے کہا تھا کہ یہاں پر پولیس تعینات کی جائے تو پھر اس میں تاخیر کیوں ہوئی اور وقت کیوں ضائع کیا گیا، یہ مجرمانہ غفلت تھی اور آئی جی کے خط پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق بیان پر سی سی پی او لاہور کو نوٹس جاری

ان کا کہنا تھا کہ ڈھائی سال ہونے کو ہیں ہر معاملے پر غفلت بڑھتی جارہی ہے، چاہے مہنگائی کو ختم کرنا ہو یا غربت، بے روزگاری کو ختم کرنا ہو حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے اسی طرح انتظامی معاملات پر بھی یہ حکومت ناکام ہے۔

شہباز شریف نے مطالبہ کیا کہ اس واقعے کی انکوائری کی جائے اور ایسے دلخراش واقعات کا تدارک کرنا اور روکنا ہے تو انصاف اور میرٹ کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔

اپوزیشن لیڈر نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ہاؤس کمیٹی بنائی جائے کہ موٹروے واقعے پر سیکیورٹی پولیس کی تعیناتی میں تاخیر کیوں ہوئی اور ایسا پولیس افسر جو بدنام زمانہ تھا اس کو کیوں تعینات کیا گیا اور طلب کرکے پوچھا جائے کہ اس وقت متنازع بیان کیوں دیا۔

شہباز شریف نے کراچی میں بچی کے ریپ کے بعد قتل کے واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ اس واقعے پر ملزم کی گرفتاری سے متعلق کیا پیش رفت ہوئی ہے اس پر بتایا جائے۔

واقعہ موٹروے پر نہیں ہوا، وزیر مواصلات مراد سعید

وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے کہا کہ اس افسوس ناک واقعے پر پوری قوم کو دکھ ہے لیکن ہمارے ہاں اس بات پر بحث نہیں ہورہی ہے کہ ان درندوں کو نشان عبرت بنایا جائے۔

—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نظام کے اندر خامیوں اور سقم پر بات نہیں ہورہی اور ہم نے دو قسم کے مباحث شروع کردیے ہیں، ایک سانحہ موٹر وے پر مراد سعید استعفیٰ دے اور دوسری بحث ہورہی ہے کہ لیبارٹری کس نے بنائی تھی اور ڈی این اے کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بار بار کہا جارہا ہے کہ لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر واقعہ ہوا حالانکہ یہ واقعہ موٹروے پر نہیں ہوا لیکن اس کی اہمیت نہیں کہ واقعہ کہاں ہوا بلکہ اس معاشرے اور ایواں کا حصہ ہونے کی وجہ سے میں ذمہ دار ہوں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ میں اگر یہ کہوں کہ یہ واقعہ موٹر وے پر نہیں ہوا تو کیا اس متاثرہ خاتون کو انصاف ملے گا اور کیا جن خواتین سے خواب چھینے گئے ہیں وہ واپس ہوں گے۔

مراد سعید نے کہا کہ میں مرد ہونے کی حیثیت سے اس واقعے کا ذمہ دار ہوں کیونکہ اس طرح کی درندگی کا مرتکب یہی مرد ہوتا ہے اور پھر بھی اس پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی۔

یہ بھی پڑھیں:'سی سی پی او کا بیان مناسب نہیں، انتظامی معاملات میں الجھے تو ہدف حاصل نہیں کرسکتے'

انہوں نے کہا کہ میں اس واقعے کا ذمہ دار ہوں کیونکہ میں اس پارلیمنٹ کا حصہ ہوں جس نے بچیوں کو تعلیم دینی ہے، خواتین کو حقوق دینا ہے اور قوم کو سمت دینا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہا گیا 130 پر فون کرنے پر انہیں جواب ملا کہ یہ ہماری حدود نہیں ہے لیکن میں نے خود کال سنی اور اس میں یہ نہیں کہا جاتا ہے بلکہ جن کی ذمہ داری تھی ان سے ملوایا جاتا ہے۔

آئی جی پنجاب کے خط سے متعلق جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئی جی نے خط نہیں لکھا بلکہ ان 8 خطوط کا جواب دیا جو انہیں لکھے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے خود شرمندگی ہورہی ہے کہ یہ واقعہ موٹروے پر نہیں ہوا، یہ ہماری، ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن بحث ہورہی ہے کہ موٹروے کس نے بنایا، لیبارٹری کس نے بنائی اور ٹیسٹ کہاں ہورہے ہیں۔

ایوان کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں والدین کو ایک ڈر اور خوف ہے، آپ ان کو احساس دلائیں کہ بیٹی طاقت ہوتی ہے کمزوری نہیں ہوتی اور جو بچیاں گھروں میں سہمی ہوئی ہیں انہیں احساس دلائیں کہ ریاست آپ کی ذمہ داری لے گی۔

چیف جسٹس ڈیم فنڈ میں 12 ارب 63 کروڑ روپے جمع ہیں، وزارت آبی وسائل

قبل ازیں وقفہ سوالات پر دیامر بھاشا ڈیم منصوبے کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کی گئیں اور وزارت آبی وسائل نے تحریری جواب دیا۔

وزارت آبی وسائل نے کہا کہ بھاشا ڈیم پر سابق حکومتوں نے 86 ارب 68 کروڑ روپے خرچ کیے جبکہ موجودہ حکومت نے اب تک 64 ارب روپے خرچ کیے ہیں۔

بیان کے مطابق موجودہ حکومت نے اراضی کے حصول کے لیے 20 ارب اور ڈیم کی تعمیر پر 43 ارب 80 کروڑ روپے خرچ کیے اور رواں مالی سال میں ڈیم کی تعمیر کے لیے 16 ارب، اراضی اور آباد کاری کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

وزارت آبی وسائل نے کہا کہ چیف جسٹس ڈیم فنڈ میں 12 ارب 63 کروڑ روپے جمع ہیں، فنڈ میں سے واپڈا نے آج تک کوئی رقم وصول نہیں کی۔

قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ ڈیم کے لیے 90 فیصد اراضی حاصل کر لی گئی ہے اور تعمیر کا کام 7 اگست 2020 سے شروع ہو چکا ہے۔

وزارت آبی وسائل نے اپنے تحریری جواب میں گزشتہ دس سال کے دوران سیلاب سے بچاؤ کے منصوبوں پر اخراجات کی تفصیل بھی قومی اسمبلی میں پیش کی، جس کے مطابق 2010 سے 2020 تک سیلاب سے بچاؤ کے منصوبوں کے لیے 7 ارب 52 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔

مزید کہا گیا کہ دس سال کے دوران 5 ارب 58 کروڑر روپے کے فنڈز جاری ہو سکے، جن میں پنجاب میں 2 ارب 7 کروڑ روپے، سندھ میں ایک 1ارب 78 کروڑ روپے، کے پی میں 60 کروڑ 82 لاکھ روپے، بلوچستان میں 46 کروڑ 62 لاکھ روپے، گلگت بلتستان میں 11 کروڑ 85 لاکھ، سابق فاٹا میں 30 کروڑ 99 لاکھ روپے اور آزاد کشمیر میں سیلاب سے بچاؤ کے منصوبوں پر 22 کروڑ 61 لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔

حج اسکیم 2020 کی رقوم پر سود وصول نہیں کیا گیا، وزارت مذہبی امور

قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر مذہبی امور نے بھی تحریری جواب جمع کروایا، جس میں کہا گیا کہ حج اسکیم 2020 کے تحت جمع کرائی گئی رقوم پر حکومت نے کوئی سود وصول نہیں کیا، تمام رقوم براہ راست بینکوں میں جمع کرائی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں آج انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2020 پر بحث ہوگی

وزارت مذہبی امور نے کہا کہ یہ رقوم بینکوں کی طرف سے شرعی نفع بخش کھاتوں میں رکھی گئی تھیں اور اس کے تحت ان رقوم پر 49 کروڑ 52 لاکھ روپے منافع حاصل ہوا۔

انہوں نے کہا کہ حاصل شدہ رقم پلگرمز ویلفئر فنڈ میں منتقل کر دی جاتی ہے، یہ رقم حجاج کی تربیت، حج مواد کی اشاعت اور حج آگاہی مہم پر خرچ ہوتی یے اور ویکسین و ادویات اور آئی ٹی کے سامان کی خریداری بھی اسی رقم سے ہوتی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان میں ڈائریکٹوریٹ آف حج اور ڈائریکٹوریٹ آف حج جدہ کی آپریشنل لاگت بھی اسی رقم سے پوری ہوتی ہے۔

قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے وقفہ سوالات میں کہا کہ ہیپاٹائٹس کے مفت علاج کا سلسلہ ہمارے دور میں پنجاب حکومت نے شروع کیا تھا، پی کے ایل آئی کی چھتری تلے پنجاب کے ہر ضلعے میں ہیپاٹائیٹس کے تدارک کے فلٹر کلینکس قائم کیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان فلٹرز کلینکس پر مریضوں کو ٹیسٹوں اور ادویات کی فری سہولت میسر تھی لیکن موجودہ حکومت کے دور میں اس منصوبے کو بند کردیا گیا ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ لاکھوں لوگ ہیپاٹائیٹس جیسے موذی مرض کے مفت علاج کی سہولت کا فائدہ اٹھا رہے تھے مگر اب ان کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔

پارلیمانی سیکریٹری ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا کہ یہ منصوبہ پنجاب حکومت کا تھا جو اب بند کردیا گیا ہے، پنجاب حکومت سے اس منصوبے کو بند کرنے کی وجوہات اور معلومات لے کر ایوان کو آگاہ کروں گی۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024