• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

کراچی کو ملنے والے 1100 ارب کی کہانی ہے کیا؟

شائع September 17, 2020 اپ ڈیٹ September 21, 2020

کراچی شہر میں ہونے والی حالیہ بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی نے وفاق، صوبے اور شہر کی سیاسی اور انتظامیہ مشینری کو متحرک کردیا ہے۔

شہر کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے وزیرِاعظم نے صوبائی حکومت کے اشتراک سے 1100 ارب روپے کا کراچی پیکج دیا ہے۔ اس پیکج میں رہائش، برساتی اور سیوریج کے نالوں کی ری اسٹرکچرنگ اور ری ماڈلنگ کے ساتھ ساتھ سفری سہولیات کی فراہمی بھی شامل ہے، بشمول گرین بس اور کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی۔

کراچی پیکج کے اعلان کے ساتھ ہی سرمائے کی فراہمی سے متعلق مشکلات سامنے آنے لگ گئی ہیں مگر وہ جاننے سے پہلے کراچی کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لے لیا جائے۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ جس کی آبادی تازہ مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ 60 لاکھ بتائی گئی ہے جو سندھ کی کل آبادی کا ایک تہائی سے زائد ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے شہروں میں بسا ہر پانچواں شہری کراچی میں بستا ہے۔ اس شہر کی شاید سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کی جی ڈی پی میں 12 سے 15فیصد کا شراکت دار ہے۔

کراچی پاکستان کا پہلا شہر ہے جس کا باقاعدہ ماسٹر پلان تھا۔ جس کے تحت شہر میں منظم رہائشی منصوبے بنائے گئے۔ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) نے 45 رہائشی اسکیمیں دیں مگر اس کے باوجود کراچی شہر کا 60 فیصد حصہ کچی آبادیوں پر مشتمل ہے۔ شہر میں چائنا کٹنگ کی وجہ سے کھلی عوامی جگہیں ختم ہوتی جارہی ہیں جبکہ بلڈر مافیا کی وجہ سے بہت سی تاریخی عمارتیں بھی خطرے کا شکار ہیں۔ شہر کے باغات پر قبضہ ہوچکا ہے اور وہاں رہائشی اور تجارتی مراکز بن چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے اب یہاں صرف 4 فیصد رقبے پر سبزہ ہے، حالانکہ عالمی معیار کے مطابق اسے کم از کم 10 فیصد ہونا چاہیے۔

کراچی شہر کی گورننس بہت ہی کمزور اور پیچیدہ ہے۔ شہر میں حکومتی اداروں کے درمیان ملکیت اور حدود کے تنازعات ہیں۔ اس کا اندازہ کراچی کی مرکزی سڑک شاہراہِ فیصل سے لگائیں جس میں جابجا کنٹونمٹ اور سندھ حکومت کی ملکیت آتی رہتی ہے اور سڑک کا حجم اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اب سڑک کس کی حدود میں داخل ہوگئی ہے۔

شہر میں کوئی ایک میونسپل یا بلدیات موجود نہیں ہے۔ بلدیہ عظمٰی کراچی کے علاوہ 5 کنٹونمٹ بورڈز، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور دیگر وفاقی اداروں کی زمینی ملکیت اور رہائشی کالونیاں شامل ہیں اور یہ سب اپنے اپنے طور پر بلدیاتی خدمات فراہم کرتے ہیں اور اس کے لیے کوئی مربوط منصوبہ بندی موجود نہیں۔

شہر میں کچی آبادیوں میں رہنے والے افراد کے لیے بلدیاتی خدمات ناکافی ہیں جس کی وجہ سے شہر نہ صرف معاشی مسابقت کھو رہا ہے بلکہ شہر میں امیر غریب کے درمیان فرق اور خدمات کی عدم فراہمی شہر میں سماجی عدم استحکام پیدا کیے ہوئے ہیں۔ آئے دن پانی، بجلی اور دیگر سہولیات کی عدم فراہمی پر عوام سراپا احتجاج رہتے ہیں اور اب تو شہر کے سب سے مہنگے علاقے کے مکین بھی احتجاج پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جس کی وجہ سے اگر یہ کہا جائے کہ شہر میں مجموعی معیارِ زندگی پست ہورہا ہے اور کراچی شہر اپنی معاشی مسابقت ملک کے دیگر شہروں لاہور اور اسلام آباد کے مقابلے میں کھو رہا ہے تو بے جانہ نہیں ہوگا۔

عالمی بینک کے global livability index میں کراچی شہر کو 10 سب سے نچلے درجے کا قابل رہائشی شہر قرار دیا ہے۔ ایک کلومیٹر میں 20 ہزار افراد رہائش پذیر ہیں اور ہر گزرتے دن یہ تناسب بڑھ رہا ہے۔ مگر شہری منصوبہ بندی، انتظامیہ اور خدمات بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ناکافی ہیں۔

کراچی دنیا کی میگا سٹی میں شمار کیا جاتا ہے مگر شہر میں عوامی ٹرانسپورٹ کا نظام میکرو چنگچی رکشوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے لوگ ذاتی گاڑیاں خریدنے اور استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ ٹریفک جام اور سڑکوں پر حادثات معمول بن گئے ہیں۔ ایک بس سیٹ کے لیے 45 شہریوں میں مقابلہ ہے۔ ممبئی میں یہ شرح 12ہے۔ اس معاملے میں خواتین کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے انہیں تعلیم اور ملازمت چھوڑنا پڑتی ہے۔

شہر میں پانی کی فراہمی اور نکاسی کا نظام تباہ ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ خراب انتظامیہ ہے۔ اس سیکٹر میں کی جانے والی سرمایہ کاری بے سود رہی ہے۔ شہر میں پانی کی ضروریات کا صرف 55 فیصد دستیاب ہوتا ہے۔ شہری ٹینکر مافیا کے رحم وکرم پر ہیں جبکہ استعمال شدہ پانی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر برد کردیا جاتا ہے۔ جس میں خطرناک کیمیکلز بھی ہوتے ہیں۔

کراچی کو پاکستان کا سب سے زیادہ رسکی شہر قرار دیا جارہا ہے، جہاں انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے مسائل قدرتی آفات کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان ساری حرکتوں کی وجہ سے شہر میں معاشی سرگرمیوں میں کمی ہورہی ہے اور اعلی معیار کی معاشی سرگرمی کراچی سے منتقل ہورہی ہے۔

کراچی کی آبادی کا معمہ

آگے بڑھنے سے پہلے کراچی سے متعلق اہم ترین معاملے پر بات کرنا ناگزیر ہوچکا ہے کیونکہ کراچی کی ابادی کتنی ہے اور اس کو کس قدر وسائل درکار ہیں اس حوالے معاملہ سیاسی رنگ اختیار کرچکا ہے۔

وزارتِ شماریات نے سال 2017ء میں چھٹی مردم شماری کے نتائج جاری کیے جس کے مطابق کراچی شہر کی آبادی میں 60 فیصد اور لاہور شہر کی آبادی میں 116 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ مردم شماری کے مطابق 1998ء سے 2017ء کے درمیان لاہور کی آبادی ایک کروڑ 11 لاکھ جبکہ کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ ظاہر کی گئی ہے۔ ان حساب کتاب سے کراچی دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ساتواں بڑا شہر بن گیا ہے۔

یہاں یہ واضح رہے کہ اس ایک کروڑ 60 لاکھ افراد میں سے 50 لاکھ افراد کچی آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ مردم شماری کے ان اعداد و شمار کو تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کردیا یے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا کہنا ہے کہ کراچی شہر کو مردم شماری کے لیے مختلف بلاکس میں تقسیم کیا گیا، جس میں سے بعض بلاکس میں آبادی میں اضافے کی شرح صفر تو کہیں 400 فیصد تک بھی ہے۔ کراچی شہر کے 1866 بلاکس میں درج ووٹرز سے بھی کم آبادی مردم شماری میں ظاہر کی گئی ہے۔

معاشی تجزیہ کار اسد سعید کا کہنا ہے کہ کراچی کی آبادی اندازے سے کچھ کم ظاہر کی گئی ہے۔ 2 سال قبل ہونے والی ایک اسٹڈی میں کراچی کی ابادی کو 1 کروڑ 60 لاکھ ظاہر کیا گیا ہے اور اقوامِ متحدہ بھی یہی اندازہ لگا رہی ہے۔ کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کرنے پر پیپلز پارٹی کو بھی تحفظات ہیں۔ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ ڈیٹا صوبائی حکومت سے شیئر نہیں کیا گیا اور اس حوالے سے سندھ حکومت نے ہائیکورٹ سے بھی رجوع کیا ہے۔

یہ معاملہ صرف سیاسی جماعتوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار نے حالیہ بارشوں کے بعد 13 اگست کی سماعت میں ریمارکس دیے کہ کراچی کی آبادی 3 کروڑ ہے۔

اب شہر کی اصل ابادی کتنی ہے اس کی حقیقت تو اسی وقت پتہ چلے گی جب شہر کی مردم شماری سے متعلق عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچتے ہیں۔

کراچی بحالی پیکج کے چند بڑے منصوبے

کراچی پیکج کے حوالے سے جن منصوبوں کا اعلان ہوا ہے وہ عالمی بینک کی رپورٹ میں نشاندہی کیے گئے منصوبوں سے ملتے جلتے ہیں۔ کراچی بلک واٹر سپلائی کے لیے 60 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ شہر کے نالے اور برساتی پانی کی گزرگاہوں کی صفائی اور نکاسی کے منصوبوں پر مجموعی طور پر 245 ارب روپے خرچ ہوں گے اور یہ جولائی 2022ء تک مکمل ہونے کی امید ہے۔

اسی کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد کے لیے کثیر منزلہ 12 ہزار فلیٹ کی تعمیر کے لیے 36 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

شہر میں ٹرانسپورٹ کے لیے گرین بس سروس کی تکمیل کے لیے 24 ارب 60 کروڑ روپے اور آپریشن کے لیے 11 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

شہر کے 5 صنعتی علاقوں سے خارج ہونے والے صنعتی فضلے کے ٹریٹمنٹ پلانٹ کے لیے 11 ارب 80 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس منصوبے پر حکومتِ پاکستان 67 فیصد فنڈنگ فراہم کرے گی جبکہ 33 فیصد سرمایہ کاری کون کرے گا اس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔ توقع ہے کہ یہ منصوبہ حکومت نجی شعبے کے تعاون سے مکمل کرے۔

کراچی سرکلر ریلوے کی مد میں 300 ارب روپے آئندہ 3 سال میں خرچ ہوں گے۔ اس پروجیکٹ کے لیے حکومت بی او ٹی کے تحت بحالی اور تعمیر کرنا چاہتی ہے۔

کراچی پیکج میں ایم ایل ون کے حوالے سے 2 منصوبے شامل ہیں جن پر تقریباً 132ارب روپے سے زائد خرچ ہونے ہیں۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) اور ریلوے کے کنکشن کو بہتر بنانے کے لیے 1 ارب 80 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ اس سے کراچی کی بندرگاہ سے فریٹ ٹرینوں کی آمد و رفت میں بہتری آئے گی۔ اسی کے ساتھ 131 ارب روپے ریلوے فریٹ کوریڈور کے حوالے سے ہوں گے جس سے پپری پر ریلوے کے فریٹ ٹرمینل کو بہتر بنایا جائے گا جہاں پر فریٹ ویگنوں کی پارکنگ اور انہیں مرمت کرنے کے لیے سہولیات میں اضافہ کیا جائے گا۔

فنانسنگ

عالمی بینک کی Transforming Karachi into a Livable and Competitive Megacity کے مطابق کراچی شہر کو قابلِ رہائش بنانے کے لیے آئندہ 10 سال میں 9 سے 10 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ عالمی بینک نے یہ تخمینہ سال 2019ء میں لگایا تھا جب ایک ڈالر 144روپے کا تھا۔

جن شعبوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے ان میں انفرااسٹرکچر، شہری ٹرانسپورٹ، فراہمی آب، نکاسی آب اور کچرے کی انتظامیہ شامل ہے۔

عالمی بینک کے مطابق کراچی شہر کو سالانہ تقریباً 160 سے 180 ارب روپے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، جس میں شہری منصوبہ بندی، شہری انتظامیہ، گورننس، ادارہ جاتی صلاحیت میں اضافہ، بلدیاتی خدمات کی فراہمی، جس میں عوامی ٹرانسپورٹ، فراہمی و نکاسی آب، کچرے کو ٹھکانے لگانے جیسے منصوبوں پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

کراچی شہر کے لیے حکومت کی جانب سے فنانسنگ کرنے کے لیے کیا سوچ ہے اس مقصد کے لیے موجودہ وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کی بجٹ تقریر برائے سال 20ء-2019ء کو سننا ضروری ہے۔ اس تقریر میں انہوں نے کراچی کے لیے 45 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا مگر اس پیکج کی ایک پائی بھی کراچی پر خرچ ہوتی نظر نہیں آئی۔ جبکہ گزشتہ سال وزیرِاعظم عمران خان کراچی کے لیے 162 ارب روپے کا اعلان کر گئے تھے مگر یہ فنانسنگ بھی دستیاب نہ ہوسکی ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومت کے مشترکہ پیکج میں 1100 ارب روپے آئندہ 3 سال میں کراچی کے انفرااسٹرکچر پر خرچ کیے جانے ہیں۔ اگر اس پورے پیکج کو سالانہ بنیاد پر تقسیم کیا جائے تو یہ 366 ارب روپے بنتے ہیں۔

کراچی بحالی پیکج میں وفاق کی جانب سے 736 ارب روپے دیے جائیں گے یعنی وفاق ہر سال 245 ارب روپے کراچی شہر کے انفرااسٹرکچر پر خرچ کرے گا جبکہ سندھ کی صوبائی حکومت 375 ارب روپے آئندہ 3 سال میں کراچی پر خرچ کرے گی جو سالانہ 125 ارب روپے بنتے ہیں۔

کراچی بحالی پیکج کے لیے وفاق کی جانب سے فنڈنگ کے لیے کیا ذرائع استعمال ہوں گے عوامی سطح پر کوئی بھی وزیر بتانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں وزیرِاعظم کے مشیر برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے کراچی کی شان میں ایک طویل قصیدہ تو پڑھ دیا مگر فنڈنگ کے لیے سورس نہیں بتایا۔

اب اطلاعات ہیں کہ وفاقی حکومت نے کراچی پیکج کے لیے 3 سطحی فنڈنگ کی منصوبہ بندی کی ہے، جس میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ فنڈ یا پی ایس ڈی پی، سپریم کورٹ فنڈ اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض پر قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر جو 460 ارب روپے جمع کرانے کا حکم دیا تھا، وفاقی حکومت کی خواہش ہے کہ اس میں سے تقریباً 125 ارب روپے کراچی بحالی پیکج کے لیے حاصل کرلے۔ اطلاعات کے مطابق اس مد میں اب تک سپریم کورٹ میں 62 ارب روپے جمع ہوچکے ہیں۔

کراچی سرکلر ریلوے کے لیے وفاق دوبارہ جاپانی ادارے جائیکا کے پاس جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جو پہلے بھی اس منصوبے میں سرمایہ کاری کے لیے تیار تھا۔ مگر سندھ اور وفاقی حکومت کی جانب سے رکاوٹوں کی وجہ سے منصوبے کو ادھورا چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ یا بلٹ آپریٹ اینڈ ٹرانسفر کی بنیاد پر مکمل کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، جبکہ سندھ حکومت کی خواہش تھی کہ سرکلر ریلوے منصوبے کو پاک چین اقتصادی راہدری کے تحت بحال کیا جائے۔

کراچی پیکج میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے لیے 260 ارب روپے کے منصوبے مختص کیے گئے ہیں، جس میں کراچی سرکلر ریلوے اور صنعتی علاقوں کے فضلے ٹریٹمنٹ پلانٹس میں شامل ہوسکتے ہیں۔

کراچی شہر کے لیے یہ تمام سرمائے کی فراہمی اور منصوبے بہت اہم ہیں۔ مگر شہر میں بہترین گورننس کے لیے بھی قانون سازی کرنا ہوگی جس میں بااختیار شہری حکومت کا قیام شامل ہے جس کو تمام شہر پر مکمل اختیار حاصل ہو اور وہ نہ صرف شہر کی خدمت کرنے کی پابند ہو بلکہ وہ شہر سے ریونیو جمع کرنے اور خرچ کرنے میں بھی بااختیار ہو۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

عبداللہ مشوانی Sep 17, 2020 09:03pm
اچھی اورمعلومات افزا تحریر ہے۔
Naved Sep 18, 2020 02:57pm
Project announcement is ok. But main thing is efficient implementation. We will appreciate once we see quick change by implementation.

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024