کورونا ویکسین کی تیاری کی دوڑ چین جیتنے کے لیے تیار
چین دنیا میں کورونا ویکسین متعارف کرانے والا پہلا ملک بن سکتا ہے۔
برطانوی روزنامے ٹیلیگراف کی رپورٹ کے مطابق چین کی جانب سے حالیہ دنوں میں کورونا وائرس کی روک تھام کی ویکسین کے حوالے سے کئی مثبت اعلانات کیے گئے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب ایک رضاکار کی نامعلوم بیماری کی وجہ سے اس دوڑ میں سب سے آگے سمجھے جانے والی آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین کا ٹرائل کچھ روز تک التوا کا شکار رہا۔
یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین پہلی بار سنجیدگی سے خیال کرنے لگے ہیں کہ چین دنیا میں کورونا کی روک تھام کے لیے پہلی موثر ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
یہ اس لیے بھی ممکن ہے کیونکہ دنیا بھر میں 9 کورونا ویکسینز کے ٹرائلز کے تیسرے اور آخری مرحلے سے گزر رہی ہیں اور ان میں سے 4 چین کی ہیں۔
بائیو میڈیکل تھنک ٹینک پالیسی کیورز ریسرچ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ویپول چوہدری کے مطابق 'چین کی 4 میں سے تین ویکسینز میں غیرفعال کووڈ 2 وائرس استعمال کیا گیا ہے جو کہ اس وبا کی روک تھام کے لیے ممکنہ طور پر بہترین طریقہ کار ہوسکتا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ ویکسینز وائرس کو ناکارہ بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی اینٹی جین خصوصیات کو برقرار رکھ سکتی ہیں، یہ روایتی طریقہ کار ہے، تو اس سے عموماً بیماری کے خلاف اچھا دفاع ملتا ہے اور مضر اثرات کا امکان کم ہوتا ہے'۔
فلاڈلفیا کے چلڈرنز ہاسپٹل کے ویکسین ایجوکیشن سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پال اوفیٹ نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا 'میں اس طریقہ کار پر مبنی ویکسینز کے حوالے سے زیادہ بہتر سوچ رکھتا ہوں کیونکہ ہمیں ان کا بہت زیادہ تجربہ حاصل ہے، اس کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کو صرف اسپائیک پروٹین کے خلاف نہیں بلکہ کورونا وائرس کے تمام پروٹینز کے خلاف مدافعتی ردعمل بنانے میں مدد مل سکتی ہے'۔
رواں ہفتے چائنا نیشنل بائیوٹیک گروپ (سی این بی جی جو چین کی سرکاری ویکسین کمپنی ہے) نے اپنی 2 ویکسینز کے تیسرے مرحلے کے ابتدائی ڈیٹا کے بارے میں اعلان کیا تھا کہ وہ رضاکاروں میں کووڈ 19 کو بچانے کے لیے موثر ثابت ہوئی ہیں۔
سی این بی جی کے سیکرٹری زاؤ سونگ نے چائنا نیشنل ریڈیو کو بتایا کہ اب تک لاکھوں شہریوں کو کمپنی کی 2 تجرباتی ویکسینز دی گئیں، جو اس وقت کلینکل ٹرائلز کے تیسرے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا 'ویکسین استعمال کرنے والے کسی بھی فرد میں کوئی مضر اثر نظر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی کووڈ سے متاثر ہوا'۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ویکسین سے ایک فرد کو ممکنہ طور پر 3 سال تک کورونا وائرس سے تحفظ مل سکے گا۔
ان کا کہنا تھا 'جانوروں پر ہونے والے تجربات کے نتائج اور دیگر تحقیقی نتائج سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ ویکسین سے ملنے والا تحفظ ایک سے 3 سال تک برقرار رہ سکتا ہے'۔
چین کی جانب سے کامیاب ویکسین کو دیگر ممالک کو بھی فراہم کرنے کے وعدے کیے گئے ہیں اور چینی کمپنیوں کی جانب سے وہاں ویکسین کے ٹرائلز بھی کیے جارہے ہیں۔
ویکسین کی تیاری کے بعد بڑے پیمانے پر اسے تقسیم کرنے کے حوالے سے لاجسٹک اور مینوفیکچرنگ کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
ویکسین کی تیاری اور تقسیم کے حوالے سے چین عالمی سطح پر بڑا نام نہیں بلکہ بھارت کو اس میں سبقت حاصل ہے۔
تاہم سی این بی جی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ایک نیا کارخانہ تعمیر کیا جارہا ہے جو ویکسین کی سالانہ ڈوز کی گنجائش 20 کروڑ سے زیادہ بڑحا دے گا۔
دوسری جانب سینوویک کی جانب سے بھی بیجنگ میں ایک نیا پلانٹ تعمیر کیا جارہا ہے جو سالانہ 30 کروڑ ڈوز تیار کرسکے گا۔
واضح رہے کہ اگست میں چین نے کہا تھا کہ کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے ویکسینز کی منظوری اسی صورت میں دی جائے گی جب ان کی افادیت کی شرح کم از کم 50 فیصد اور کورونا وائرس کے خلاف قوت مدافعت 6 ماہ تک برقرار رکھ سکے گی۔
چین کے سینٹر فار ڈرگ ایولوشن (سی سی ڈی ای) کا تجویز کردہ مسودہ سامنے آیا ہے جس میں کورونا ویکسین کے حوالے سے ضوابط دیئے گئے ہیں۔
مسودے کے مطابق ویکسینز کے ہنگامی استعمال کے لیے کم از کم افادیت کی شرح رکھی گئی ہے اور ان میں ایسی ویکسین بھی شامل ہوگی جس کا کلینیکل ٹرائل مکمل نہ ہوا ہو مگر افادیت کو دیکھتے ہوئے اس کے استعمال کی منظوری دے دی جائے گی۔
ویکسین کی افادیت کے حوالے سے چینی گائیڈلائنز میں عالمی ادارہ صحت اور یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ہدایات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
یہ گائیڈلائنز اس وقت سامنے آئیں جب چین میں 4 کورونا ویکسینز کلینیکل ٹرائلز کے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔