اس معروف تصویر کے پیچھے چھپی دلخراش داستان
اوپر موجود تصویر ہوسکتا ہے کہ آپ نے پہلے بھی دیکھی ہو کیونکہ یہ دنیا کی چند معروف ترین تصاویر میں سے ایک ہے۔
بھوک سے بلکتی بچی اور اس کی موت کے منتظر گدھ کی یہ تصویر جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے فوٹوگرافر کیون کارٹر نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کی تھی۔
اس تصویر نے فوٹوگرافر کو دنیا میں شہرت دی مگر اس کے بعد وہ بہت زیادہ وقت زندہ نہیں رہ سکا اور جلد خودکشی کرلی۔
1960 میں پیدا ہونے والے کیون کارٹر کے آباؤ اجداد برطانیہ سے تعلق رکھتے تھے مگر وہ سیاہ فام حقوق کے لیے آواز بلند کرتے تھے۔
1980 میں وہ ویٹر کے طور کام کرتے تھے مگر وہاں کچھ فوجیوں نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ نوکری ختم ہونے پر نیند کی گولیاں، دردکش ادویات اور چوہے مار زہر کھا لیا مگر زندہ بچ گئے۔
پھر 1983 تک وہ فوج میں کام کرتے رہے اور ایک بم دھماکے میں 19 افراد کی ہلاکت کے بعد اس سے مستعفی ہوگئے۔
بعد ازاں ایک کیمرا سپلائی شاپ میں کام کرنے لگے اور بتدریج صحافت کا حصہ بن گئے، پہلے وہ جوہانسبرگ سنڈے ایکسپریس میں اسپورٹس فوٹوگرافر کے طور پر کام کرنے لگے۔
مگر 1984 میں نسلی فسادات کے بعد وہ جوہانسبرگ اسٹار کا حصہ بن گئے اور سفید فام حکومت کے مظالم سامنے لانے کا کام کرنے لگے۔
وہ ان چند فوٹوگرافر کے گروپ میں شامل تھے جس کو بینگ بینگ کلب کا نام دیا گیا تھا اور اس کا مقصد قصبوں میں تشدد کو کور کرنا تھا۔
1993 میں وہ سوڈان گئے تاکہ قحط سالی سے متاثر افراد کی حالت کو دنیا کے سامنے لاسکیں۔
وہاں انہوں نے وہ تصویر کھینچی جس کی بدولت انہیں پلٹرز ایوارڈ ملا۔
ایک گاؤں میں تصاویر کھینچنے کے بعد وہ جھاڑیوں کی جانب گئے تو انہیں کچھ آوازیں سنائی دیں جو ایک قریب المرگ بچی نکال رہی تھی جو ایک امدادی مرکز کی جانب جاتے ہوئے راستے میں گر گئی تھی۔
جب کیون کارٹر نے بچی کی تصویر کھینچ رہے تھے تو انہوں نے ایک گدھ کو بچی کے قریب اترتے دیکھا۔
اس خطے میں کام کرنے والے فوٹوگرافرز کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ متاثرین کو چھونے سے گریز کریں کیونکہ وہ چھوت کی بیماری کے شکار ہوسکتے ہیں۔
تو کیون کارٹر نے بچی کی مدد کرنے کی بجائے 20 منٹ یہ انتظار کرتے ہوئے گزار دیئے کہ کب گدھ اپنے پروں کو کھولتا ہے۔
ایسا نہ ہونے پر انہوں نے تصویر کو کھینچ لیا اور پھر پرندے کو ڈرا کر بھگا کر بچی کو امدادی مرکز کی جانب دیکھتے رہے۔
اس کے بعد انہوں نے ایک سیگریٹ جلائی، خدا سے بات کی اور رونے لگے۔
یہ تصویر 26 مارچ 1994 کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی اور دیکھنے والوں کے اندر تجسس پیدا ہوا کہ اس بچی کے ساتھ کیا ہوا تھا جبکہ فوٹوگرافر کو اس کی مدد کے لیے آگے نہ آنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اس تصویر کے باعث ایک بحث شروع ہوئی کہ فوٹوگرافرز کو اس طرح کے حالات میں خاموش یا الگ تھلگ رہنے کی بجائے متاثرین کی مدد کرنا چاہیے۔
قارئین کی تنقید پر اخبار نے ایک ادارتی نوٹ بھی شائع کیا تھا جس میں صورتحال کی وضاحت کی گئی، اخبار نے لکھا 'فوٹوگرافر نے بتایا تھا کہ وہ بچی اس حد تک قابل ہوگئی تھی کہ گدھ کے بھگائے جانے کے بعد اپنے راستے پر چل سکے، مگر یہ معلوم نہیں کہ وہ امدادی مرکز تک پہنچ سکی یا نہیں'۔
جہاں تک اس بچی کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ کسی نہ کسی طرح وہ امدادی مرکز پہنچ کر بچنے میں کامیاب رہی۔
درحقیقت اس بچی کا انتقال 14 سال بعد ملیریا بخار کے باعث ہوا تھا۔
کیون کارٹر نے اس تصویر کے باعث شہرت اور پلیٹرز ایوارڈ تو اپنے نام کیا مگر اس روشن دن کی تاریکی کبھی ان کے اندر سے نکل نہیں سکی۔
درحقیقت سوڈان میں ان کی کھینچی گئی یہی واحد تصویر نہیں تھی بلکہ متعدد ایسی تصاویر ان کے کیمرے میں محفوظ ہوئیں جو انتہائی دلخراش تھیں جن کو دیکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔
افسوسناک واقعات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنا ان کی ذہنی حالت کو متاثر کرنے کا باعث بنا، یہاں تک کہ ٹائم میگزین کے ایک اسائنمنٹ کے لیے وہ موزمبیق گئے تو واپسی میں کھینچی گئی تصاویر کے 16 رول پرواز میں ہی بھول گئے، جو کبھی مل نہیں سکے۔
اس کے ایک ہفتے کے اندر ہی انہوں نے خودکشی کرلی، جس کے لیے وہ اپنی گاڑی میں ایک پارک گئے، وہاں گاڑی کے سائلنسر میں ایک پائپ کو فکس کرکے کار کے اندر لائے اور تمام کھڑکیاں دروازے بند کرکے اسے اسٹارٹ کردیا۔
گاڑی سے خارج ہونے والی کاربن مونو آکسائیڈ گیس کے نتیجے میں وہی وہ چل بسے۔
ان کے آخری خط میں لکھا تھا کہ 'میں قحط سالی کے شکار اور زخمی بچوں کی قتل و غارت، لاشوں، غصے، تکلیف اور درد کی یادوں کے آسیب میں گھر گیا ہوں۔
خودکشی کے وقت ان کی عمر 33 سال تھی اور جب انہوں نے خودکشی کی تو کیریئر کے حوالے سے وہ ان کے لیے کامیاب ترین سال تھا جب پلٹرز پرائز کے ساتھ ساتھ انہیں امریکن میگزین پکچر آف دی ایئر کا اعزاز بھی دیا گیا تھا۔
ان کے والد جمی کارٹر نے خودکشی پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا بیٹا اپنے کام سے جڑے خوف کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھا اور وہ اس کے لیے بہت زیادہ بھاری ثابت ہوا۔