• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

عمان کا اسرائیل-بحرین 'امن معاہدے' کا خیر مقدم

شائع September 13, 2020
—فوٹو: رائٹرز
—فوٹو: رائٹرز

عمان نے اسرائیل اور بحرین کے مابین 'امن معاہدے' کے اقدام کا خیرمقدم کیا ہے اور اُمید ظاہر کی کہ اس سے اسرائیلی اور فلسطین کے درمیان امن میں مدد ملے گی۔

خبررساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق حکومت نے بیان میں کہا کہ '(عمان) اُمید کرتا ہے کہ بعض عرب ممالک کی جانب سے اٹھائے گئے نئے تزویراتی اقدامات فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور مشرقی یروشلم کے ساتھ دارالحکومت کے طور پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر مبنی امن قائم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے'۔

مزید پڑھیں: ترکی اور ایران کی اسرائیل-بحرین معاہدے کی سخت مذمت

اسرائیل کے وزیر انٹلی جنس نے 13 اگست کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے کے اعلان کے کچھ دن بعد کہا تھا کہ عمان بھی اس ملک کے ساتھ تعلقات کو باضابطہ طور پر تشکیل دے سکتا ہے۔

عمان نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے فیصلوں کا خیرمقدم کیا ہے لیکن معمول کے تعلقات کے اپنے امکانات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

2018 میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے عمان کا دورہ کیا تھا اور اس وقت کے عمانی رہنما سلطان قابوس سے مشرق وسطی میں امن اقدامات پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

دوسری جانب ترکی اور ایران نے اسرائیل اور بحرین کے مابین ہونے والے معاہدے کی مذمت کی ہے۔

خیال رہے کہ ایک ماہ قبل یعنی 15 اگست کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین سفارتی تعلقات بحال کرنے سے متعلق 'امن معاہدہ' کا اعلان کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسرائیل سے معاہدہ کرکے یو اے ای نے عالم اسلام، فلسطینوں کے ساتھ غداری کی، ایران

اس طرح محض ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اپنے سابق حریف اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والا دوسرا عرب ملک بن گیا۔

ترکی کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ انقرہ اس اقدام سے 'فکر مند' ہے اور اس معاہدے کی 'سخت مذمت' کرتا ہے۔

مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی میں سماجی امور کے وزیر احمد مجدالانی نے کہا کہ یہ معاہدہ مسئلہ فلسطین اور فلسطینی عوام کی پشت پر چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔

غزہ کی پٹی پر کنٹرول رکھنے والی جماعت حماس نے کہا تھا کہ یہ ایک 'جارحیت' ہے جس نے فلسطینی مقاصد کے لیے 'سنگین مسائل' کا آغاز کردیا۔

واضح رہے کہ 15 اگست کو امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے مابین امن معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں ممالک باہمی تعلقات استوار کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تعلقات کو معمول پر لانا ایک 'بہت بڑی پیشرفت' ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان 'تاریخی امن معاہدہ'

18 اگست کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی 'موساد' کے سربراہ یوسی کوہن نے سیکیورٹی سے متعلق امور پر بات چیت کے لیے یو اے ای کا دورہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین 'امن معاہدے' کے بعد کسی اسرائیلی عہدیدار کا ابوظہبی کا یہ پہلا اعلیٰ سطح کا دورہ تھا۔

اس پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے معاہدے کر کے عالم اسلام اور فلسطینیوں کے ساتھ غداری کی ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب نے کہا تھا کہ وہ اس وقت تک متحدہ عرب امارات کی تقلید میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرسکتا جب تک یہودی ریاست فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط نہ کردیں۔

علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے پر کہا تھا کہ پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا حق ملنے تک ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024