چیف جسٹس سے 'موٹر وے ریپ' پر از خود نوٹس لینے کی استدعا
اسلام آباد: موٹروے پر خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے خلاف ملک میں غم و غصہ دن بدن شدت اختیار کرتا جارہا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ متاثرہ خاتون اور ان کے دو بچوں کی حفاظت میں ناکام متعلقہ ذمہ داران کے خلاف ازخود کارروائی کا آغاز کریں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست وکیل مریم فرید خواجہ کی جانب سے پیش کی گئی۔
علاوہ ازیں دو دیگر وکلا مہراج ترین اور شائستہ تبسم سلطان پور کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک مشترکہ پٹیشن دائر کی گئی جس میں عدالت عالیہ کے قائم مقام جج کی سربراہی میں کمیشن کے ذریعے المناک واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔
مزید پڑھیں: موٹر وے ریپ کیس: پولیس کو جائے وقوع سے کیا کچھ ملا؟
مریم خواجہ نے اپنی درخواست میں افسوس کا اظہار کیا کہ سیالکوٹ ۔لاہور موٹر وے پر پیش آنے والے واقعے نے پولیس کا غیر معمولی رویہ ظاہر کیا جب کہ لاہور کے کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) محمد عمر شیخ نے مایوس کن ریمارکس دیے جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ متاثرہ کے برتاؤ سے مذکورہ واقعہ پیش آیا۔
مراسلے میں کہا گیا کہ سی سی پی او کے ریمارکس سے قوم اور خاص طور پر خواتین پاکستان میں خطرہ اور غیر محفوظ محسوس کررہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے سے غیر محفوظ ماحول کی عکاسی ہوتی ہے جس میں خواتین کو رہنا اور کام کرنا پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ مراسلے میں چیف جسٹس سے درخواست کی گئی کہ انکوائری میں سیف پولیسنگ اور پولیس اصلاحات کے لیے اصول، اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے سفارشات اور متعلقہ قوانین کے مؤثر نفاذ کے لیے تجاویز پیش کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: موٹر وے پر خاتون کے 'گینگ ریپ' پرشوبز شخصیات میں غم و غصہ
دوسری جانب ایڈووکیٹ جہانگیر خان جدون کے توسط سے دائر مشترکہ پٹیشن میں سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی کہ وہ سیکریٹری داخلہ، پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل، موٹر وے پولیس اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل اور لاہور کے سی سی پی او کو حکم دیں کہ وہ واقعے کی مؤثر تحقیقات کریں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔
پٹیشن میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ متعلقہ ذمہ داران کو 24 گھنٹے کے اندر ملک بھر میں موٹر ویز اور شاہراہوں پر عوام کے تحفظ کے لیے لائحہ عمل مرتب کرنے کا پابند کیا جائے۔
درخواست میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ عصمت دری کی بات کی جاتی ہے تو پاکستان ان 10 بدترین ممالک میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک برس کے دوران پنجاب میں خواتین، بچوں اور لڑکیوں کے اغوا کے تقریبا 14 ہزار 850 کیسز رپورٹ ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے پر مدد کی متلاشی خاتون کا 'ڈاکوؤں' نے 'گینگ ریپ' کردیا
درخواست میں کہا گیا کہ واقعے سے پاکستان کا نام بدنام ہوا کیونکہ بین الاقوامی میڈیا نے خاص طور پر خواتین کے لیے ملک میں سلامتی کی ابتر صورتحال کی مذمت کی ہے۔
درخواست میں چیف جسٹس سے استدعا کی گئی کہ وہ اس معاملے میں از خود کارروائی کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 4 ، 5 ، 9 ، 14 اور 25 میں شامل عوام کے بنیادی حقوق کو نافذ کرے اور پولیس حکام بالخصوص موٹر وے پولیس کی بے پرواہی کی تحقیقات کرے۔
پٹیشن میں کہا گیا کہ پنجاب میں 2014 سے جون 2017 کے دوران 10 ہزار ریپ کی کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ پولیس کی ناکامی سے ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔
درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی کہ وہ جواب دہندگان کی عدم فعالیت کی وجہ سے اجتماعی عصمت دری کے واقعے میں ذمہ داری کا تعین کریں اور متاثرہ اور دیگر خواتین کو قانون کے مطابق تحفظ فراہم کریں۔
درخواست میں عدالت عظمی سے استدعا کی گئی کہ وہ لاہور کے سی سی پی او کے متنازع بیان کے بعد عہدے پر فائز رہنے کے لیے نااہل قرار دیں۔