گینگ ریپ کا شکار خاتون کے حوالے سے بیان پر سی سی پی او لاہور کو تنقید کا سامنا
موٹروے پر گینگ ریپ کا شکار خاتون کے حوالے سے متنازع بیان دینے پر سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو شدید تنقید کا سامنا ہے اور وفاقی وزیر انسانی حقوق نے بھی اس معاملے کا نوٹس لے لیا۔
گجرپورہ کے علاقے میں 2 'ڈاکوؤں' نے مبینہ طور پر ایک خاتون کو اس وقت ریپ کا نشانہ بنایا جب وہ موٹروے پر اپنی گاڑی میں کچھ خرابی کے بعد مدد کا انتظار کر رہی تھیں۔
مزید پڑھیں: موٹروے پر مدد کی متلاشی خاتون کا 'ڈاکوؤں' نے 'گینگ ریپ' کردیا
سی سی پی او لاہور نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ اکا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی گاڑی ہرگز خراب نہیں ہوئی اور ایک بجے جیسے ہی انہوں نے ٹول پلازہ عبور کیا ہے تو اس کے چار کلومیٹر بعد ان کا پیٹرول ختم ہو گیا لیکن وہ کن حالات میں اتنی رات کو جا رہی تھیں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا بلکہ ان کے اہلخانہ کو اس بارے میں زیادہ پتہ ہو گا۔
متاثرہ خاتون کو غلط راستہ اختیار کرنے پر تنقید کا نشانہ بنانے کے بیان پر سی سی پی او لاہور کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے سی سی پی او کے بیان کو ناقابل قبول قررا دیتے ہوئے کہا کہ ایک افسر کی جانب سے خاتون کو گینگ ریپ کا نشانہ بننے پر ذمے دار ٹھہرائے جانا، یہ کہنا کہ انہوں نے جی ٹی روڈ کیوں لیا اور یہ بھی کہ وہ بچوں کے ہمراہ اکیلی باہر کیوں نکلی، یہ سب بیان ناقابل قبول ہیں اور میں یہ معاملہ اٹھا رہی ہوں۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی لاہور میں گینگ ریپ کے واقعے کی مذمت کی۔
انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ موٹروے پر اجتماعی زیادتی و بے حرمتی کے واقعے کا سن کر دل دہل گیا ہے، اس وحشیانہ کارروائی میں ملوث تمام افراد کو کیفر کردار تک پہنچا کر نشان عبرت بنانا لازم ہے، یہ معمولی واقعہ نہیں ہے۔
سی سی پی او کے بیان پر تنازع کھڑا کردیا گیا، شہزاد اکبر
جمعرات کی شام کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے اس واقعے کو اندوہناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس طرح کا جرم ہم کسی بھی صورت برداشت نہیں کر سکتے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا بچی اور خاتون سے 'زیادتی' کے واقعات کا نوٹس
انہوں نے کہا کہ سی سی پی او لاہور کو اس کیس کی نگرانی کی ہدایت کی گئی ہے اور تفتیش میں کام آنے والے تمام مراحل مکمل کر لیے گئے ہیں، لہٰذا مجھے امید ہے کہ جلد ملزمان تک پہنچ جایا جائے گا جبکہ اس معاملے میں کچھ انتظامی غلطیاں بھی ہیں جسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ یہ لنک روڈ ہے جس کی وجہ سے یہ واقعہ وہاں رونما ہوا۔
شہزاد اکبر نے سی سی پی او لاہور کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان پر ایک تنازع کھڑا کردیا گیا ہے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنا اور شاہراہوں، محلوں کو محفوظ بنانا حکومت کی ذمے داری ہے اور اگر اس طرح کا واقعہ پیش آتا ہے تو ان لوگوں کو گرفتار کر کے نشان عبرت بنانا بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔
مزید پڑھیں: کراچی: اللہ والا ٹاؤن میں 5 منزلہ رہائشی عمارت زمین بوس، ایک لڑکا جاں بحق
سی سی پی او لاہور کی قابلیت کے حوالے سے سوال پر معاون خصوصی نے کہا کہ میں عمر شیخ صاحب کو پہلے سے نہیں جانتا تھا لیکن ان کی انتظامی صلاحیتیں ہمیں نظر آرہی ہیں کیونکہ 36 گھنٹوں میں کیسز حل ہو رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں آپ جرائم کی شرح میں نمایاں کمی بھی دیکھیں گے۔
اس موقع پر سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے کہا کہ ہم فُٹ ٹریکنگ، جیو فینسنگ، ملزمان کے ڈی این اے نمونے اور سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ان چار چیزوں پر کام کر رہے ہیں۔
خاتون کو مورد الزام ٹھہرانا مقصد نہیں تھا، سی سی پی او لاہور
عمر شیخ نے خاتون کے حوالے سے اپنے متنازع بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عوام کو ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسا نہیں ہے لہٰذا احتیاط سے کام لینا چاہیے لیکن ہم نے اپنی ذمے داری سے پہلو تہی نہیں کی۔
قبل ازیں سی سی پی او نے اپنے دفتر کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خاتون کو جی ٹی روڈ سے جانے کا مشورہ دینے کا مقصد انہیں مورد الزام ٹھہرانا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ آپ احتیاط سے کام لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کے خاتون کے شوہر اور اہلخانہ فرانس میں ہیں اور ان کے ذہن میں فرانس کا ماحول تھا جس کی وجہ سے وہ رات میں گھر سے باہر نکلیں، وہ سمجھ رہی تھیں کہ ہمارا معاشرہ بھی اسی طرح محفوظ ہے۔
انہوں نے کہا کہ فرانس وغیرہ میں معاشرے صرف قانون سے محفوظ نہیں ہیں بلکہ وہاں اخلاقی قدروں، قانون کی بالادستی اور عملداری کی وجہ سے محفوظ ہیں اسی لیے خواتین وہاں رات میں سفر کرتی ہیں اور ان کو کچھ نہیں ہوتا۔
سی سی پی او کے خلاف کس بات کی کارروائی کریں، اسد عمر
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے کہا کہ سی سی پی او نے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی کہ جس کی وجہ سے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے البتہ ان کا بیان غیر ضروری تھا۔
نجی چینل 'جیو نیوز' کے پروگرام 'کیپیٹل ٹاک' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہر پاکستانی کا حق ہے کہ وہ جتنے بجے بھی سڑک عبور کرنا چاہے کر سکتا ہے، ریاست کا کام حفاظت فراہم کرنا ہے لہٰذا یہ بالکل غیر ضروری بات تھی۔
اسد عمر نے کہا کہ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ انہیں یہ غیر ضروری بیان نہیں دینا چاہیے تھا لیکن ہم کارروائی کس بات کی کریں کہ آپ نے بیان اچھا نہیں دیا؟
سی سی پی او کا بیان ناقابل قبول ہے، فواد چوہدری
اسد عمر کے برعکس وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سی سی پی او کے بیان کو ناقابل قبول قرار دیا۔
انہوں نے نجی چینل 'اے آر وائی' کے پروگرام 'آف دی ریکارڈ' میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے اس رویے کا اظہار بدقسمتی ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے سی سی پی او کو ہٹانے کے سوال پر کہا کہ پنجاب حکومت والے مجھ سے پہلے ہی ناراض رہتے ہیں، اب اگر میں کوئی بات کرتا ہوں تو نیا تنازع کھڑا ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور موٹروے کے قریب 2 مسلح افراد نے مبینہ طور پر ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ گاڑی بند ہونے پر وہاں مدد کی منتظر تھیں۔
واقعے کی تفصیل سے متعلق پولیس عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ 2 مسلح افراد نے خاتون کو تنہا دیکھا اور اسلحے کے زور پر خاتون اور بچوں کو قریبی کھیت میں لے گئے اور وہاں خاتون کا گینگ ریپ کیا۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب سے رپورٹ طلب کرلی جبکہ اس معاملے میں 12 مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم جاری کیا ہے۔
اس حوالے سے وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ چوہدری شہزاد اکبر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ وزیراعظم نے گزشتہ شب لاہور موٹروے کے قریب پیش آئے ہولناک واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ وہ ملزمان کو پکڑیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ انہیں سخت سے سخت سزا ملے۔