سانحہ بلدیہ فیکٹری پر دستاویزی فلم ’ڈسکاؤنٹ ورکر‘
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں واقع کپڑے کی فیکٹری علی انٹرپرائزز میں لگنے والی بدترین آگ اور اس میں جھلس کر زندگی گنوانے والے 260 افراد کے اہل خانہ کے مصائب و آلام پر بنائی گئی دستاویزی فلم کو یورپ میں ہونے فلم فیسٹیول میں پیش کیا جائے گا۔
ڈان اخبار کے مطابق پاکستانی فلم ساز عمار عزیز اور جرمن فلم ساز کرسٹوفر پاٹز کی دستاویزی فلم ’ڈسکاؤنٹ ورکر‘ کو 11 ستمبر کو یورپی ملک چیکہ جمہوریہ کے شہر پراگ میں ہونے والے فلم فسٹیول میں پیش کیا جائے گا۔
’ڈسکاؤنٹ ورکر‘ کو پراگ میں ہر سال ہونے والے ’ون ورلڈ فلم فیسٹیول‘ میں پیش کیا جائے گا، جس میں دیگر دستاویزی اور فیچر فلموں کو بھی پیش کیا جائے گا۔
مذکورہ فلم فیسٹیول انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بنائی گئی فلموں کی نمائش کے حوالے سے دنیا کا اہم ترین فلم فیسٹیول ہے۔
اس فلم فیسٹیول میں زیادہ تر سانحات اور واقعات پر بنائی گئی دستاویزی یا حقیقی فیچر فلموں کو پیش کیا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں مذکورہ دستاویزی فلم کو جرمنی کے شہر برلن میں ہونے والے ہیومن رائٹس فلم فیسٹیول میں بھی پیش کیا جا رہا ہے۔
ہیومن رائٹس فلم فیسٹیول کی ویب سائٹ پر ’ڈسکاؤنٹ ورکر‘ کو آن لائن بھی پیش کیا جا رہا ہے، تاہم اسے کورونا کے باعث پاکستان میں ریلیز نہیں کیا جا سکا۔
ڈان کے مطابق ’ڈسکاؤنٹ ورکر‘ کو سانحہ بلدیہ فیکٹری کی 8 ویں برسی پر 11 ستمبر کو سانحے کا شکار بننے والی فیکٹری پر نشر کیا جانا تھا مگر کورونا کے باعث اس کی نمائش مؤخر کردی گئی۔
فلم کی ہدایات عمار عزیز اور جرمن فلم کرسٹوفر پاٹز نے دی ہیں جب کہ دستاویزی فلم کو پروڈیوس بھی جرمن فلم سازوں نے کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 20 کروڑ روپے بھتہ نہ ملنے پر بلدیہ فیکٹری کو آگ لگوائی گئی، رپورٹ
دستاویزی فلم میں سانحہ بلدیہ کے دل خراش واقعات اور حادثے میں زندگی گنوانے والوں کے اہل خانہ کی مشکلات کو پیش کرنے سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دکھایا گیا ہے۔
دستاویزی فلم میں سانحہ بلدیہ میں اپنا واحد بیٹا گنوانے والی کراچی کی سعیدہ خاتون کی جدوجہد کو دکھایا گیا ہے جو اپنے بیٹے کے لیے انصاف لینے یورپ جا پہنچتی ہیں۔
دستاویزی فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح سعیدہ خاتون چند دیگر متاثرہ خاندان کے ساتھ یورپ جاکر حادثے کا شکار بننے والی کمپنی کی سرمایہ کار گارمنٹ کمپنی اور بلدیہ فیکٹری کو سیفٹی سرٹیفکیٹ جاری کرنے والی کمپنی کے خلاف قانونی جنگ لڑتی ہیں۔
سعیدہ خاتون اور دیگر متاثرہ خاتون نے جرمنی کی گارمنٹ کمپنی (KIK) اور اٹلی کی فیکٹریز کو سیفٹی سرٹیفکیٹ جاری کرنے والی کمپنی (RINA) کے خلاف قانونی کارروائی کی تھی۔
اٹلی کی سیفٹی کمپنی پر الزام ہے کہ اس نے بلدیہ فیکٹری کو حادثے سے محض 20 دن قبل سیفٹی کلیئرنس سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا جب کہ جرمنی کی گارمنٹ کمپنی پر الزام ہے کہ اس نے ایسی فیکٹری سے ملبوسات تیار کرائے جہاں مکمل انسانی حفاظت کے انتظامات نہیں تھے۔
ابھی یہ واضح نہیں ہےکہ مذکورہ دستاویزی فلم کو پاکستان میں کب تک پیش کیا جائے گا، تاہم شائقین اسے ہیومن رائٹس فلم فیسٹیول کی ویب سائٹ پر پیسوں کے عوض آن لائن دیکھ سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ 11 ستمبر 2012 کو کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں قائم کپڑے کی فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 260 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری: زمینی حقائق اب بھی وہی ہیں
سانحہ بلدیہ ٹاؤن کیس میں فروری 2015 میں ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب رینجرز کی جانب سے سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں ایم کیو ایم کو اس واقعے میں ملوث قرار دیا گیا۔
سانحہ بلدیہ کی تفتیش کے لیے حکومت سندھ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کمیٹی بھی تشکیل دی تھی، جس کی حال ہی میں رپورٹس منظر عام پر لائی گئی تھیں۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے اعلیٰ عہدیدار حماد صدیقی نے 20 کروڑ روپے بھتہ نہ ملنے پر بلدیہ میں قائم گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگوائی۔