کورونا کے باعث بچوں کی شرح اموات دوبارہ بڑھنے کا خدشہ
اقوام متحدہ (یو این) نے کورونا کی وبا کے باعث نوزائیدہ اور کم عمر بچوں کی زندگی بچانے والی کئی دہائیوں کی محنت پر پانی پھرنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وبا کے باعث پھر سے بچوں کی شرح اموات بڑھ سکتی ہے۔
بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق دو دہائیوں بعد گزشتہ سال 2019 میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات سب سے کمی رہی تھی اور گزشتہ سال دنیا بھر میں صرف 52 لاکھ بچے موت کا لقمہ بنے۔
یونیسیف کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 1990 میں ایک کروڑ 25 لاکھ بچے قابل علاج بیماری کے باعث لقمہ اجل بنے تھے اور اب کورونا کی وجہ سے دوبارہ بچوں کی شرح اموات بڑھنے کا خدشہ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یونیسیف اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کورونا کی جاری عالمی وبا اس حوالے سے تمام تر پیشرفت کو ریورس کرسکتی ہے۔
پاکستان کو صحت سے متعلق سب سے متاثرہ ممالک میں شامل کیا گیا ہے جہاں والدین بھی انفیکشن کے خوف، نقل و حمل میں مشکلات، خدمات اور سہولیات کی معطلی یا بندش، موزوں اور دستانے جیسے ذاتی حفاظتی سازوسامان کی قلت اور ان سب سے بڑھ کر مالی پریشانوں کی وجہ سے صحت مراکز سے گریز کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: کورونا میں مبتلا مائیں نوزائیدہ بچوں کو دودھ پلاسکتی ہیں، عالمی ادارہ صحت
افغانستان، بولیویا، کیمرون، وسطی افریقی ممالک، لیبیا، مڈغاسکر، سوڈان اور یمن بھی سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔
یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہنریٹا فور کا کہنا ہے کہ 'عالمی برادری بچوں کی اموات سے بچنے کے لیے اتنا آگے بڑھ چکی ہے کہ کورونا وائرس اسے روکنے کی اجازت دے سکے، جب بچوں کو صحت کی سہولیات تک رسائی سے انکار کر دیا جاتا ہے اور جب خواتین انفیکشن کے خوف سے اسپتال میں بچے کو جنم دینے سے ڈرتی ہیں تو وہ بھی کورونا وائرس کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہیں، فوری سرمایہ کاری کے بغیر نوزائیدہ بچوں سمیت پانچ سال سے کم عمر کے لاکھوں بچے موت کا شکار ہو سکتے ہیں'۔
عالمی ادارہ صحت کے بیان کے مطابق کہ گزشتہ 30 سالوں میں قبل از وقت پیدائش اور نمونیا سمیت بچوں کی اموات کی وجوہات کی روک تھام یا ان کے علاج میں نمایاں پیش قدمی دیکھنے میں آئی تھی۔
تاہم اب ممالک کو ممالک بچوں اور زچگی کی خدمات، جانچ پڑتال، ویکسین اور قبل از پیدائش اور بعد کی دیکھ بھال میں وسائل کی کمی اور صحت کی سروسز کے استعمال میں عوام میں تشویش کی وجہ سے رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ماؤں میں آگاہی کا فقدان، نوزائیدہ بچوں کی اموات کی بڑی وجہ
یونیسیف کی جانب سے گرمیوں کے موسم میں 77 ممالک میں کیے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 68 فیصد کم عمر بچوں کوطبی معائنے اور حفاظتی ٹیکوں میں رکاوٹیں درپیش ہیں۔
105 ممالک میں کیے گئے ڈبلیو ایچ او کے ایک حالیہ سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 52 فیصد ممالک میں بیمار بچوں کے لیے صحت کی خدمات میں رکاوٹوں اور 51 فیصد غذائیت سے متعلق انتظام کے لیے خدمات میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا کہنا ہے کہ 'ماضی کے مقابلے میں در حقیقت آج زیادہ بچے اپنی پہلی سالگرہ دیکھنے کے لییے جیتے ہیں، اب ہمیں کورونا وائرس کی وجہ سے اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کے لیے قابل تعریف ترقی کا رخ تبدیل نہیں کرنے دینا ہے بلکہ اب وقت آگیا ہے کہ زندگی بچانے کے لیے جو بھی معلومات رکھتے ہیں اس کا استعمال کریں اور مضبوط، لچکدار صحت کے نظام میں سرمایہ کاری کرتے رہیں'۔