گیس کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، معاون خصوصی
اسلام آباد: گیس کی شدید قلت کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ آئین کی دفعہ 158، جس میں گیس پیدا کرنے والے صوبوں کو ترجیحی حقوق دینے کا وعدہ کیا گیا ہے، وہ قابل عمل نہیں رہی اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو آگے بڑھنے کے لیے قابل عمل راہ پر اتفاق رائے حاصل کرنا ہوگا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 'آنے والے دنوں میں ہمیں بڑے پیمانے پر گیس کی لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا، سپلائی بڑھانے کے طریقہ کار کا حل ہمیں آج ہمیں ہی تلاش کرنا ہوگا'۔
انہوں نے کہا کہ گیس کی اوسط قیمت (ڈبلیو اے سی او جی)، جو درآمد شدہ ایل این جی اور مقامی گیس کی مشترکہ لاگت ہے، کی بنیاد پر گیس کی قیمتوں کے تعین کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک آپشن ہے۔
مزید پڑھیں: گیس کمپنیوں کی قیمت میں اضافے سے متعلق درخواستیں مسترد
انہوں نے کہا کہ 'آئین کے آرٹیکل 158 کا معاملہ 10 سال سے زیر التوا ہے جنہیں زمینی حقائق اور چند سنگین امور کی وجہ سے اٹھایا گیا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ طلب میں اضافہ اور مقامی گیس کی پیداوار کو دیکھتے ہوئے گیس پیدا کرنے والے صوبوں میں بھی اس کا استعمال کیا جائے تو سندھ کو ڈیڑھ سال میں گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کے بعد خیبر پختونخوا کو ڈھائی سال میں اور بلوچستان کو تقریباً ساڑھے تین سالوں میں گیس کی قلت کا سامنا ہوگا۔
ندیم بابر کا کہنا تھا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) کو صرف 22-2021 کے موسم سرما میں تقریبا 450 ایم ایم سی ایف ڈی (ملین مکعب فٹ فی یوم) گیس کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس وقت صوبہ سندھ کی صنعت کو گیس کی کل فراہمی کے برابر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یا تو صنعت کو یا رہائشی سیکٹر کو گیس کی فراہمی روکنے کی ضرورت ہوگی'۔
یہ بھی پڑھیں: لاک ڈاؤن کے دوران گیس کمپنی پر بڑھا چڑھا کر بل بھیجنے کا الزام
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سردیوں میں سندھ سے تقریبا 260 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پنجاب کو برآمد کی گئی تھی جبکہ کے الیکٹرک کو تقریبا 60 ایم ایم سی ایف ڈی، ایل این جی فراہم کی گئی تھی، آنے والے موسم سرما میں سندھ میں گیس کی طلب میں 100 ایم ایم سی ایف ڈی کا اضافہ ہونا ہے۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ملک میں گیس کی طلب ساڑھے 6 سے 7 ارب ایم ایم سی ایف ڈی اور پیداوار 3.5 ارب ایم ایم سی ایف ڈی ہے اور گیس کے موجودہ ذخائر 7.5 فیصد کی شرح سے کم ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی ہدایات پر ایک سیمینار منعقد کیا جارہا ہے جہاں دو وزرا اعلیٰ اور دیگر دو کے نمائندگان سمیت تکنیکی ماہرین میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کے لیے اپنی تجاویز دیں گے جسے سی سی آئی میں قومی اتفاق رائے کے لیے اٹھایا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان بھی اس کانفرنس میں شرکت کریں گے۔