وزیراعلی سندھ کی وفاقی حکومت سے پورے سندھ کیلئے مدد کی اپیل
وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی حکومت سے درخواست کی کہ جس طرح کووِڈ 19 کی صورت میں حکومت سندھ کے کیے گئے اقدامات کی حمایت کی گئی تھی اسی طرح سیلابی صورتحال کے معاملے پر اقدامات میں سندھ حکومت کا ساتھ دیں۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ میں مختلف منصوبوں کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اس لیے وفاقی حکومت سے ہماری درخواست ہے کہ وہاں بھی ہماری مدد کرے اور پورے سندھ کو ایک نظر سے دیکھے۔
وزیراعلیٰ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے بتایا کہ کراچی میں سندھ حکومت کے 802 ارب روپے کے منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں جس میں کے فور سمیت صرف پانی کی فراہمی کے لیے 110 ارب روپے کے منصوبے شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ریکارڈ بارش سے کراچی سمیت سندھ بھر میں سیلابی صورتحال، 7 افراد جاں بحق
ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت ان کو میچ کریں، انہوں نے کہا کہ جب کہا گیا کہ عالمی بینک نے کہا ہے کہ انفرا اسٹرکچر کے لیے آپ کو 10 ارب روپے چاہیے تو اس کا مذاق اڑایا گیا حالانکہ وفاقی حکومت نے ایک جگہ خود کہا تھا کہ 3 ہزار ارب روپے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ان منصوبوں کے لیے وفاقی حکومت ہمارے ساتھ کام کرے اور نہ صرف کراچی بلکہ پورے صوبہ سندھ کے لیے اسی عزم کا اظہار کرے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے دوران عوام نے مجھ سے کہا کہ ہماری اسی طرح مدد کریں جس طرح 2011 میں کی تھی جب اس وقت کے صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی خود ان علاقوں میں گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ میں نے بھی میڈیا میں کراچی کے سوا کہیں کی فوٹیج نہیں دیکھی اگر دکھائی بھی تو صرف تنقید کے لیے، لیکن لوگوں کی حالت زار بھی دکھائیں تا کہ عوام کو معلوم ہو کہ کیا صورتحال ہے۔
مزید پڑھیں: کراچی: بارش سے ہونے والے نقصانات کیخلاف درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے نوٹس جاری کردیے
انہوں نے کہا مجھے پورے سندھ کے لیے مدد چاہیے خاص طور پر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لیے فوری ریلیف درکار ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ میں نے چیئرمین این ڈی ایم اے سے بھی کہا اور سب سے کہتا ہوں کہ میرے ہاتھ میں کوئی چیز نہ دیں آپ خود جا کر عوام کو ریلیف پہنچائیں لیکن اللہ کے واسطے اس پر منفی سیاست نہ کی جائے۔
سندھ میں بارش کے بعد ہونے والے نقصانات
سندھ میں بارش کے بعد کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ سندھ میں بدین، عمر کوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ اور شہید بینظیر آباد کے کچھ علاقے دریا کا منظر پیش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں موجود کچے مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور بڑے شہر یعنی تعلقہ ہیڈکوارٹرز کو بھی چاروں طرف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کسی تعلقہ ہیڈکوارٹر کے مرکزی علاقوں میں پانی نہیں رکا، متاثرہ علاقوں میں لوگ اپنے خاندان سمیت سڑکوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بارش سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ ان بارشوں میں پورے سندھ میں 100 اموات ہوئی جس میں 63 کراچی جبکہ 35 سندھ کے دیگر حصوں میں ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی سمیت سندھ بھر میں بارشوں سے تباہی، صوبے میں رین ایمرجنسی نافذ
انہوں نے مزید بتایا کہ جوہی میں تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار لوگ متاثر ہوئے، 23 ہزار ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، ایک ہزار 80 کچے گھر مکمل طور پر منہدم جبکہ ایک ہزار 640 جزوی متاثر اور 30 پکے مکمل منہدم جبکہ 355 جزوی متاثر ہوئے۔
وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ تعلقہ سانگھڑ میں 48 ہزار افراد، تعلقہ کھیپرو میں 80 سے 81 ہزار افراد متاثر ہوئے، تعلقہ عمر کوٹ میں 3 لاکھ، سامارو میں ایک لاکھ 25 ہزار 500، کنڈری میں ایک لاکھ 55 ہزار 200، پتھور میں 85 ہزار 100 افراد سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے۔
کراچی میں بارش کے باعث ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ضلع وسطی میں 29 پکے مکانات مکمل تباہ جبکہ 2 کو جزوی نقصان پہنچا، ایک چھت منہدم ہوئی، 48 اسکول، ایک ہسپتال، ایک سرکاری دفتر، 4 مساجد کو نقصان پہنچا۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ ابتدائی تخمینہ ہے ابھی مکمل اندازہ نہیں لگایا جاسکا۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی نکالنے میں بہت وقت لگا، خاص کر کھارادر کے علاقے میں سب سے زیادہ مشکلات آئیں جو اب صاف کردیا گیا جبکہ اسی دوران عاشورہ کے جلوس بھی تھے اس لیے تمام تر کوششیں کر کے جلوس کے راستے صاف کیے گئے۔
مزید پڑھیں:کراچی سمیت سندھ بھر میں ہفتہ سے مون سون کی مزید بارش کی پیش گوئی
مراد علی شاہ نے بتایا کہ اب ان جگہوں پر بہت کیچڑ اور گندگی ہے اور ڈی ایم سیز کو اسے صاف کرنے کی ہدایت دی جاچکی ہے، علاوہ ازیں سرجانی ٹاؤن، یوسف گوٹھ کی بری حالت تھی جہاں سے بھی پانی نکال دیا گیا ہے اور کیچڑ صاف کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیا ناظم آباد میں بھی ڈپٹی کمشنر کو بھیج کے مدد کی پیشکش کی گئی تا کہ وہاں بھی لوگوں کی مشکلات دور کی جاسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے پاس 42 ہزار خیمے تھے جو اب تقریباً صفر ہوگئے ہیں اور زیر آب علاقوں میں تقسیم کردیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ این ڈی ایم سے 2 ہزار خیمے ملے، کوشش کی جارہی ہے لوگوں کو کھانا پہنچائیں جس میں فلاحی ادارے بھی ہمارے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔