• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

وزیراعلیٰ سندھ کا ورلڈ بینک سے کراچی کے انفرا اسٹرکچر کی بحالی کیلئے تعاون پر زور

شائع September 2, 2020 اپ ڈیٹ September 3, 2020
کراچی میں بارشوں سے سڑکوں کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے—فائل/فوٹو:اے پی
کراچی میں بارشوں سے سڑکوں کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے—فائل/فوٹو:اے پی

وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر سے کراچی سمیت صوبے میں 14.39 کروڑ ڈالر کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا اور شہر کے بارش سے متاثرہ انفرا اسٹرکچر کی بحالی کے لیے تعاون پر زور دیا۔

وزیراعلیٰ سندھ کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق ویڈیولنک پر منعقدہ اجلاس میں ورلڈ بینک کے نئے کنٹری ڈائریکٹر نیجے بینہیسن اور ان کی ٹیم نے اسلام آباد سے شرکت کی جبکہ چیئرمین پی اینڈ ڈی محمد وسیم، سیکریٹری ساجد جمال ابڑو اور سیکریٹری مالیات حسن نقوی نے وزیر اعلیٰ کی معاونت کی۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ اگست میں ایک دن میں 250 ملی میٹر بارش ہوئی جس سے شہر کا نیٹ ورک تباہ ہوگیا ہے، اسی لیے حکومت نے متاثرہ سڑکوں کی دوبارہ تعمیر کا فیصلہ کیا۔

مزید پڑھیں:کراچی: بارش سے ہونے والے نقصانات کیخلاف درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے نوٹس جاری کردیے

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام برساتی نالوں پر قبضے کے بعد کی گئیں تعمیرات کو ہٹا کر نالوں کو صاف کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کے دیگر چار اضلاع میرپورخاص، عمر کوٹ، سانگھڑ اور بدین میں بھی شدید بارش ہوئی ہے اور میں وہاں کا دورہ کرکے آیا ہوں۔

مذکورہ اضلاع کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہاں پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں اور بارش کے پانی نے بڑی تعداد میں شہریوں کے گھروں کو تہس نہس کردیا ہے۔

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ 'ہم نے متاثرہ شہریوں کو عمرکوٹ میں قائم خیموں میں منتقل کردیا ہے'۔

اعلامیے کے مطابق ورلڈ بینک کے سربراہ نے وزیراعلیٰ سندھ کو یقین دلایا کہ وہ برساتی نالوں کی تعمیر سمیت کراچی کے انفرااسٹرکچر کی دوبارہ تعمیر کے لیے مالی منصوبے پر کام کریں گے۔

انہوں نے تجویز دی کہ ورلڈ بینک کی ٹیم سے مذاکرات کے لیے چیئرمین پی اینڈ ڈی کو اس حوالے سے اپنا منصوبہ اور دیگر تمام ضروری دستاویزات کے ساتھ مختص کریں۔

خیال رہے کہ سندھ میں ورلڈ بینک کے تعاون سے 60.88 کروڑ ڈالر کے منصوبے زیر تعمیر ہیں، جس میں سندھ میں زراعت کی بہتری کے لیے 5 کروڑ 60 لاکھ ڈالر بھی شامل ہے اور یہ منصوبہ 81 فیصد مکمل ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی سمیت سندھ کے 20 اضلاع آفت زدہ قرار

سندھ پبلک سیکٹر منیجمنٹ ریفارمز کا منصوبہ 4 کروڑ 74 لاکھ ڈالر پر مشتمل تھا جو مکمل ہوچکا ہے تاہم اب تک تکمیل کی رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔

وزیراعلیٰ کے دفتر سے جاری بیان میں کراچی میں جاری منصوبوں کے حوالے سے کہا گیا کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے شہر میں اس وقت متعدد منصوبے جاری ہیں۔

منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ 2 کروڑ 53 لاکھ ڈالر کا کراچی مضافاتی منصوبہ 29 فیصد مکمل ہوچکا ہے اور واٹر اینڈ سیوریج سروس میں بہتری کا 11 لاکھ ڈالر کا منصوبہ حال ہی میں شروع ہوا اور تین فیصد مکمل ہوچکا ہے۔

بیان کے مطابق کراچی موبیلٹی منصوبہ 40 لاکھ ڈالر کا ایک نیا منصوبہ ہے جو حال ہی میں شروع ہوا ہے اور لائیوابیل سٹی آف کراچی پروجیکٹ بھی دو فیصد مکمل ہوگیا ہے جس کی مالیت 48 لاکھ ڈالر ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ اور ورلڈ بینک کے کنٹری منیجر نے زیرتعمیر تمام منصوبوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

یاد رہے کہ کراچی سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں حالیہ مون سون بارشوں نے تباہی مچادی تھی جس کے نتیجے میں سڑکیں، کاروباری مراکز، انڈر پاسز، ہاؤسنگ سوسائٹیز سمیت لوگوں کے گھروں میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہوگیا تھا۔

شہر میں ریکارڈ بارش سے لوگوں کو بدترین مالی نقصان پہنچا جبکہ بہت سے لوگ اپنے پیاروں سے بھی محروم ہوگئے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے 28 اگست کو بتایا تھا کہ صوبے بھر میں مون سون کی بارشوں سے 80 افراد جاں بحق ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: 'کراچی کے 3 بڑے مسائل حل کرنے کیلئے وفاقی، صوبائی حکومت مل کر کام کریں گی'

مراد علی شاہ نے کہا تھا کہ کراچی میں 6 جولائی سے بارش کے پہلے اسپیل سے اب تک 47 افراد جان کی بازی ہار گئے، 27 اگست کو کراچی میں سب سے زیادہ 17 اموات ہوئیں جبکہ پورے سندھ میں 80 افراد مون سون اسپیل کے دوران جاں بحق ہوئے۔

مراد علی شاہ نے کہا تھا کہ سندھ حکومت نے صوبے بھر میں بارشوں سے ہونے والے نقصانات کے سروے کا حکم دیا ہے، مہنگے علاقوں میں بھی زیادہ نقصان ہوا، دکانداروں کا بہت نقصان ہوا ہے، دیہی علاقوں میں چھوٹے زمینداروں کی فصلوں کو نقصان ہوا اور کچے مکانات گر گئے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ تمام نقصانات کا سروے کرکے رپورٹ مرتب کریں گے اور وفاقی حکومت کے سامنے رکھیں گے، کمیٹی بناکر لوگوں کی مدد کریں گے اور وفاقی حکومت سے بھی مدد کی درخواست کریں گے۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ میں شہر میں شدید بارشوں کے باعث انفرا اسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان کی انکوائری اور متاثرہ افراد کو معاوضوں کی ادائیگی کے لیے درخواست دائر کی گئی جس پر عدالت نے مقامی اور صوبائی حکومتوں کو نوٹسز جاری کردیے۔

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے دیگر فریقین کے ساتھ ڈپٹی اٹارنی جنرل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو بھی 9 ستمبر تک جواب جمع کروانے کے نوٹسز ارسال کیے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ شہر کی بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات اور بالخصوص نالوں پر بڑے پیمانے پر تجاوزات، ناقص ڈیزائن کی سڑکوں اور نکاسی آب سے شہر میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی اور بے مثال نقصان پہنچا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ تین بڑے ہسپتالوں کے داخلی مقامات میں پانی بھر گیا، اہم راستے تالاب بن گئے تھے اور بارشوں کے دوران متعدد ہنگامی نمبرز خراب پڑے تھے۔

مزید پڑھیں: حکومتِ سندھ کے ساتھ مل کر کراچی کیلئے خاص منصوبہ شروع کریں گے، شبلی فراز

پٹیشن میں کہا گیا کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی اربنائزیشن، جنگلوں کی کٹائی، شہر میں بڑھتی ہوئی پختہ تعمیرات نے بارش کے پانی کو قدرتی طور پر زمین میں جذب نہیں ہونے دیا اور ماحولیاتی تبدیلیاں آئندہ آنے والے سالوں میں ان مسائل میں مزید اضافہ کریں گی۔

سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ سیلابی صورتحال نے شہر کی انتظامیہ، ترقی اور منصوبہ بندی میں خامیوں کو آشکار کردیا ہے۔

درخواست میں چیف سیکریٹری سندھ، وزیراعلیٰ اور گورنر کے پرنسپل سیکریٹریز، بلدیاتی محکموں اور ری ہیبلیٹیشن کے سیکریٹریز، میٹروپولیٹن کمشنر، تمام کنٹونمنٹ بورڈز کے چیف ایگزیکٹو افسران، کے الیکٹرک اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024