حکومت کا پرائیوٹ منیجرز سے 'سرکاری اداروں' کے فرانزک آڈٹ کرانے پر غور
اسلام آباد: حکومت نے انتظامی معاہدوں کے ذریعے پرائیوٹ منیجرز کے ذریعے خسارے میں مبتلا سرکاری اداروں (ایس او ای) کے فرانزک آڈٹ پر غور کرنا شروع کردیا۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو 30 ستمبر تک کارکردگی رپورٹ تیار کرکے جمع کرانی ہے۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ اور محصولات ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ریاستی ملکیت والی کاروباری کمیٹیوں (سی سی ایس او ایز) کی کابینہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ دو روز میں ایس او ایز کی نئی کیٹیگری تیار کی جائے تاکہ انہیں پرائیوٹ سیکٹر کے مینجمنٹ کنٹریکٹ کے حوالے کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد وزارتوں کی وجہ سے ہونے والی کسی قسم کی پریشانی کیے بغیر مذکورہ کام کو مختصر وقت میں مکمل کیا جاسکے۔
سی سی ایس اویز نے نجکاری اور تنظیم نو کے لیے مجوزہ ایس او ایز پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس تک اس فہرست پر دوبارہ نظر ثانی کی جانی چاہیے اور اس فہرست میں ایک نئی کیٹیگری متعارف کرائی جائے جہاں اداروں پر حکومت کی ملکیت برقرار رہے اور اس انتظامیہ کو بہتر نظم و نسق کے لیے نجی شعبے کے ذریعے چلایا جاسکے۔
اجلاس کو ایس او ایز کی مشکلات سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
لیکوڈیشن، نجکاری اور سرکاری ملکیت سے متعلق تین کیٹیگریز کو اے پی ای کی مالی کارکردگی کی بنیاد پرجائزہ لیا گیا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ ان تینوں کیٹیگریز کی پیروی کرتے ہوئے حکومت آئندہ ایک برس میں کوئی قابل ذکر نتائج حاصل نہیں کرسکے گی اور اسی وجہ سے اگلے چند روز میں ایس او ایز کی ایک نئی کیٹیگری کی ضرورت ہے تاکہ سی سی ایس او ای کے حوالے سے کچھ ٹھوس پیشرفت ہوسکے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ایس او ای کی تکمیل سے متعلق پیشرفت کے بارے میں آئی ایم ایف کو مطلع کرنا ضروری تھا لیکن صرف اس بات پر غور نہیں کرنا چاہیے، اس کے بجائے کمیٹی کو کم سے کم وقت میں ایس او ای کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے سلسلے میں کچھ قابل قدر شراکت کے لیے حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے جو آئی ایم ایف کے لیے بھی بہتر طور پر پیش کی جاسکتی ہیں۔
اجلاس میں ایس او ایز کے ایک مسودے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے ہدایت کی کہ لا ڈویژن سمیت وزارتوں کے ساتھ مشاورت سے اس قانون کا مزید جائزہ لیا جائے۔
یہ خبر یکم ستمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی