سپریم کورٹ میں صدارتی نظامِ حکومت پر ریفرنڈم کرانے کیلئے ایک اور درخواست
اسلام آباد: ایک سول انجینئر نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں انہوں نے کہا کہ کیا پاکستانی عوام موجودہ جعلی پارلیمانی نظام کے خلاف صدارتی طرز کی حکمرانی چاہتے ہیں؟ اس پر فوری رائے شماری ہونی چاہیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست کے ذریعے السٹر یونیورسٹی، برطانیہ سے ٹربائن ڈیزائن میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر صادق علی نے عدالت سے استدعا کی کہ جب بھی اس کیس کو اٹھایا جائے تو وہ عوامی مفاد کے لیے قومی ٹی وی چینلز اور الیکٹرانک میڈیا پر براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا جائے۔
درخواست گزار نے کہا کہ اس سے میڈیا کی ترجمانی میں غلط فہمیوں اور حقائق کی تحریف سے بچنے میں مدد ملے گی۔
مزید پڑھیں: صدارتی نظام پر ریفرنڈم کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست
اس سے قبل ایسی ہی ایک درخواست ہم عوام پاکستان پارٹی کے چیئرمین طاہر عزیز خان نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کا حوالہ دیتے ہوئے دائر کی تھی، یہ آرٹیکل لوگوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے عدالت عظمیٰ کے اختیار کو دیکھتا ہے۔
نئی درخواست میں وزیر اعظم عمران خان اور دیگر متعلقہ فریقین سے اس معاملے پر آئین کے آرٹیکل 48 (6) کے تحت ریفرنڈم کروانے کی ہدایت کی گئی ہے کہ پاکستانی عوام اپنی فلاح و بہبود کے لیے صدارتی طرز کی حکمرانی چاہتے ہیں یا نہیں۔
تقریبا اسی طرح کے دلائل ڈاکٹر صادق علی نے اپنی درخواست میں ملک میں پارلیمانی طرز حکومت کی ناکامی کو اجاگر کرنے کے لیے اپنائے ہیں اور بتایا ہے کس طرح اخراجات میں کمی لانا اور عوامی حکمرانی کی کمان کو متحد کرنا ضروری ہے۔
درخواست گزار نے بڑھتی ہوئی آبادی، اعلیٰ عوامی قرضوں، حکومتوں کی جانب سے پاکستان کے اوسط انسانی ترقیاتی اشاریہ (ایچ ڈی آئی) کا موازنہ خطے کے دیگر ممالک، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور بھوٹان سے کرتے ہوئے نوجوانوں کو بامقصد ملازمتوں کی منصوبہ بندی کرنے میں ناکامی کا حوالہ دیا ہے۔
درخواست میں دعوی کیا گیا کہ 'حکومتیں تجارت کے دائمی توازن کو حل کرنے میں ناکامی کے علاوہ ایک متفقہ صنعتی پالیسی یا صنعتی بیس تشکیل دینے میں بھی ناکام ہو چکی ہیں جس سے پاکستان اور اس کے عوام غیر ملکیوں کے شکنجے میں دھکیل دیے جاتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: ’صدارتی نظام یا پارلیمانی نظام‘ کی بحث ایک بار پھر زندہ
حکومتیں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں بھی ناکام رہی ہیں جو حقیقت میں جی ڈی پی کو بڑھا سکتی ہیں اور روزگار پیدا کرسکتی ہیں۔
درخواست میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ اراکین پارلیمنٹ وفاداریاں تبدیل کرنے کے عادی ہیں اور صرف اپنے ذاتی مفادات کو فروغ دینے کے لیے حکومتوں کو بلیک میل کرنے کے لیے خفیہ معاہدے کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس طرح ایک صحت مند اپوزیشن اور ایک مضبوط حکومت عوام کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنے کے لیے موجود نہیں ہے'۔
درخواست میں اسمبلیوں میں ہونے والے تھوڑی سی قانون سازی کے کاموں پر بھی روشنی ڈالی گئی جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ اکثر کورم کی کمی کی وجہ سے اجلاس ملتوی ہوجاتے ہیں اور حزب اختلاف کا نگرانی کا کردار متاثر ہوتا ہے۔