سندھ: بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم، حلقہ بندیوں کا اعلان
سندھ میں 30 اگست کو بلدیاتی کونسلز کی 4 سالہ مدت اختتام پذیر ہونے پر بلدیاتی حکومتوں کے تمام منتخب عہدے تحلیل کردیے گئے۔
اس ضمن میں سندھ حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ 31 اگست سے میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین، وائس چیئرمین، اراکین، نمائندوں اور میٹروپولیٹن کارپوریشن اور میونسپل کارپوریشن، ڈسٹرک کونسلز، میونسپل کمیٹیوں، ٹاؤن کمیٹیوں، یونین کمیٹیوں اور یونین کونسلز کی حیثیت ختم سمجھی جائے گی۔
اعلامیے میں مذکورہ بالا تمام منتخب اور نامزد نمائندوں کو تمام واجبات اور اثاثہ جات بشمول سرکاری گاڑیاں اور دیگر مراعات واپس کرنے کا حکم دیا گیا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں جرم تصور ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: کووڈ 19، قانونی چیلنجز کے باعث سندھ میں بلدیاتی انتخابات مؤخر ہونے کا امکان
خیال رہے کہ ملک کے دیگر تینوں صوبوں میں 4 سالہ بلدیاتی دور حکومت پہلے ہی اپنی مدت پوری کرچکا ہے۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بلدیاتی حکومتوں کی مدت بالترتیب 27 جنوری 2019 اور 28 اگست 2019 کو اختتام پذیر ہوئی تھی جبکہ پنجاب میں بلدیاتی حکومتیں 4 مئی 2019 کو تحلیل ہوئی تھیں۔
حلقہ بندیوں کا اعلان
دوسری جانب بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم ہونے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کا اعلان کردیا۔
اس ضمن میں نوٹیفکیشن میں الیکشن کمیشن نے یونین کونسلز، یونین کمیٹیوں اور وارڈز کی حلقہ بندیوں کا شیڈول جاری کیا ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق 9 ستمبر سے 22 ستمبر تک حلقہ بندی کمیٹیاں حلقوں کی ابتدائی فہرست تیار کریں گی۔
مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کی صوبے میں بلدیاتی انتخابات موخر کرنے کی درخواست مسترد
23 ستمبر کو حلقہ بندیوں کی فہرستیں شائع کی جائیں گی جس کے بعد 23 ستمبر سے 7 اکتوبر تک حلقہ بندی اتھارٹیز کے پاس نامزدگی اور اعتراضات جمع کروائے جاسکتے ہیں۔
بعدازاں 22 اکتوبر تک اعتراضات دور کیے جائیں گے جس کے بعد 29 اکتوبر کو حلقہ بندی اتھارٹیز کے فیصلے پر حلقہ بندی کمیٹیوں سے رابطہ کیا جاسکے گا۔
بالآخر 30 اکتوبر کو حلقہ بندی کمیٹی حلقوں کی حتمی فہرست شائع کردے گی جس کے بعد سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوگا۔
انتخابات ملتوی ہونے کا خدشہ
سندھ میں مقامی حکومتوں کی مدت اختتام کو پہنچنے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں کے اعلان کے باوجود وقت پر انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے۔
10 اگست کو کراچی کے میئر اور ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنما وسیم اختر نے رپورٹرز کو کہا تھا کہ ان کی مدت 28 اگست کو مکمل ہورہی ہے اور جلد بلدیاتی انتخابات ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔
اس کے 4 روز بعد چیئرمین پیپلزپارٹی نے نئے انتخابات کا اشارہ دیتے ہوئے باضابطہ طور پر اعلان کیا تھا کہ سندھ میں ان کی جماعت، منتخب بلدیاتی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد کراچی کے انتظامی امور کو سنبھالے گی۔
یہ بھی پڑھیں: نئے بلدیاتی قانون کے تحت پنجاب میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں، الیکشن کمیشن
یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ صوبائی کابینہ کی جانب سے شہر میں کیماڑی کو نیا ضلع بنانے کے فیصلے کے بعد بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں کی لازمی شرط قانونی چیلنج کی شکل اختیار کر گئی تھی۔
اس سے قبل سندھ میں 12 سال سے زائد عرصے سے حکومت کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے 2010 میں اس وقت کی ضلعی حکومت کو تحلیل کرنے کے بعد صوبے بھر میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں 5 سال لگائے تھے جبکہ یہ انتخابات بھی سپریم کورٹ کے حکم پر سال 2015 میں کروائے گئے تھے۔
یہاں تک کہ آج بھی حکومت سندھ بیوروکریٹس کی مدد سے معاملات چلارہی ہے اور بلدیاتی حکومتوں خاص طور پر کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص کی بلدیاتی حکومتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو اہم میونسپل کام تفویض کیے گئے ہیں۔
مزید برآں موجودہ بلدیاتی حکومت کی مدت پوری ہونے کے ساتھ ہی صوبائی حکومت صوبے کی میٹروپولیٹن اور میونسپل کارپوریشنز اور میونسپل اور ٹاؤن کمیٹیز کے ایڈمنسٹریٹرز کے طور پر کچھ بیوروکریٹس کو تعینات کرنے کے لیے تیار ہے۔