پاکستان کی سویڈن، ناروے میں قرآن کی بے حرمتی، مقبوضہ کشمیرمیں عزاداروں پر شیلنگ کی مذمت
پاکستان نے یورپی ممالک میں قرآن پاک کے نسخے 'نذر آتش' کرنے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے 10 محرم کے جلوس کے شرکا پر شیلنگ کی شدید مذمت کی ہے۔
ترجمان دفترخارجہ زاہد حفیظ چوہدری کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا کہ 'پاکستان حال ہی میں سویڈن کے شہر مالمو اور ناروے کے شہر اوسلو میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات کی شدید مذمت کرتا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'اسلاموفوبیا کے اس طرح کے بڑھتے ہوئے واقعات کسی بھی مذہب کی تعلیمات کے خلاف ہیں، مذہبی نفرت سے آزادی اظہار کا دفاع نہیں ہوسکتا'۔
ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ 'دوسروں کے مذہبی عقائد کا احترام کرنا مشترکہ ذمہ داری ہے اور عالمی امن و استحکام کے لیے نہایت ضروری ہے'۔
خیال رہے کہ سویڈن کے شہر مالمو میں گزشتہ روز پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی تھیں جبکہ مظاہرین نے پتھراؤ اور ٹائز نذر آتش کردیے تھے۔
مزید پڑھیں:سویڈن میں 'قرآن پاک کے نسخے نذر آتش' کرنے پر کشیدگی
پولیس ترجمان ریکارڈ لنڈکویسٹ کا کہنا تھا کہ 300 سے زائد مظاہرین جمع ہوئے اور انہوں نے مبینہ طور پر اسلامی مقدس کتاب (قرآن) کے نسخے نذر آتش کی۔
ان کا کہنا تھا کہ جمعے کو 10 سے 20 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا تھا اور اب 'سب کو رہا کردیا گیا ہے'۔
رپورٹ کے مطابق ڈنمارک میں انتہائی دائیں بازو کی اینٹی امیگریشن پارٹی 'ہارڈ لائن' کے راسمس پلوڈن اس ریلی میں تقریر کرنے کے لیے مالمو کا سفر کررہے تھے مگر انہیں گرفتار کرکے واپس بھیج دیا گیا تھا، جس کے بعد مظاہرین سڑکوں پرآئے تھے۔
سویڈن کے حکام کا کہنا تھا کہ راسموس پلوڈن پر سویڈن میں داخلے پر دوسال کی پابندی ہے اور 'ہمیں شبہ تھا کہ وہ سویڈن میں قانون کو توڑنے والے تھے'۔
کشمیر میں عزاداروں پر آنسو گیس کے استعمال کی مذمت
مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے ترجمان دفترخارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ 'مقبوضہ جموں و کشمیر میں محرم کے جلوس میں شامل مسلمانوں پر پیلٹس اور آنسو گیس کے فائر کیے جانے پر پاکستان شدید مذمت کرتا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'اطلاعات ہیں کہ غیرقانونی اور بلاامتیاز پیلٹس فائر کرنے سے درجنوں کشمیری شدید زخمی ہوئے، جنہیں آنکھوں میں زخم آئے ہیں جس کے نتیجے میں ہمیشہ کے لیے نابینا ہوجائیں گے'۔
یہ بھی پڑھیں:بھارتی فورسز کی محرم الحرام کے جلوس پر پیلٹ گن سے فائرنگ، 40 کشمیری زخمی
ان کا کہنا تھا کہ 'بھارت کی فوج غیرقانونی طور پر مقبوضہ کشمیر میں 2010 سے پیلٹ گنز اور کارٹریجز استعمال کررہی ہے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں اور ہزاروں کشمیریوں کو گہرے زخم آئے، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں'۔
ترجمان دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ 'اس خونی مہم میں کشمیر کے نوجوانوں کو منصوبے کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'بلاامتیاز شہریوں کو پیلٹ گنز سے نشانہ بنانے سے ناقابل علاج زخم لگ رہے اور ہلاکتیں بھی ہورہی ہیں، جو واضح طور پر انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'بھارتی حکومت اقوام متحدہ کے فورس اور آتشیں اسلحے کے استعمال کے بنیادی اصولوں اور اقوام متحدہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عہدیداروں کے قواعد و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی کررہی ہے'۔
زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ 'بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت کو احساس ہونا چاہیے کہ وہ بھارتی قابض فورسز کے ان غیرقانونی اقدامات کی براہ راست ذمہ دار ہے'۔
انہوں نے کہا کہ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے قوانین عالمی سطح پر تسلیم شدہ جرائم کو تحفظ نہیں دے سکتے'۔
ترجمان دفترخارجہ نے عالمی برادری کو مخاطب کرکے کہا کہ 'عالمی برادری کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں فوری طرح پر انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی پر اقدامات کرنے چاہئیں اور بھارت کو غیرقانونی اقدامات پر کٹہرے میں لانا چاہیے'۔
زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ'بھارت کو عالمی قوانین پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے'۔
مزید پڑھیں:پاکستان کی مقبوضہ کشمیر میں محرم کے جلسوں پر پابندی کی مذمت
واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز نے محرم الحرام کے جلوس میں شامل عزاداروں پر پیلٹ گن اور آنسو گیس فائر کردیے تھے، جس کے نتیجے میں 40 افراد زخمی ہوگئے۔
عینی شاہدین کے مطابق وادی میں مذہبی اجتماعات پر عائد پابندی کو نظر انداز کرنے والے درجنوں افراد بھارتی فورسز کی پیلٹ گن سے زخمی ہوئے۔
محرم الحرام کے مقدس مہینے میں روایتی جلوس نکالنے کے خواہاں مسلمانوں کے ساتھ جھڑپوں کے بعد بھارتی حکام نے جمعرات کو مذہبی اجتماعات پر پابندی دوبارہ نافذ کردی تھی۔
ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیلٹ گن کے تقریباً 25 متاثرہ افراد کو قریبی کلینک میں لے جایا گیا تھا ان میں سے کچھ کے چہرے اور جسم پر چھروں کے نشانات تھے۔
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ہم ایک درجن کے قریب افراد کو بہتر علاج کے لیے دوسرے شعبے میں منتقل کر چکے ہیں۔