فوج امریکی انتخابات میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گی، جنرل مارک ملی
امریکا کے سب سے سینئر جنرل اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے امریکی کانگریس میں کہا ہے کہ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں فوج کوئی کردار ادا نہیں کرے گی اور انتخابی نتائج میں کسی بھی قسم کے تنازع کے حل میں بھی کوئی مدد نہیں کرے گی۔
امریکی خبر رساں ایجنسی 'اے پی' کے مطابق جنرل مارک ملی کانگریس کی دو رکنی سروسز کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور سوالات کا خط کی صورت میں جواب دیا۔
مزید پڑھیں: امریکی انتخابی مہم میں دوبارہ روسی مداخلت کے الزامات
انہوں نے کہا کہ انتخابات اور اس سلسلے میں کسی بھی تنازع کے حل کے لیے امریکی آئین اور قوانین میں طریقہ کار موجود ہے، میں اس عمل میں امریکی فوج کو نہیں دیکھ رہا۔
امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کے مطابق جنرل مارک ملی نے کہا کہ انتخابات کے چند امور پر کسی بھی قسم کا تنازع سامنے آنے کی صورت میں فوج نہیں بلکہ قانون کے تحت امریکی کانگریس اور عدالتوں کو اس تنازع کو حل کرنا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں سیاست سے پاک امریکی فوج کے اصول پر بے انتہا یقین رکھتا ہوں۔
انتخابی نتائج کے سلسلے میں فوج سے مدد لینے کی بات اس وقت سامنے آئی جب ایک انٹرویو میں صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے حریف جو بائیڈن سے سوال کیا گیا کہ اگر ٹرمپ انتخابات میں شکست کے بعد دفتر نہیں چھوڑتے تو کیا ہوگا، تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر 2020 کے صدارتی انتخابات میں شکست کی صورت میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر کا دفتر خالی نہیں کرتے ہیں کہ فوج کی مدد لی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کی انتخابی مہم، خاندان کے افراد، قریبی ساتھیوں کو رقم دینے کا الزام
بائیڈن نے فوج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس کو ٹرمپ سے خالی کرا لیں گے۔
ادھر 2016 کی صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن سمیت ڈیموکریٹ کے دیگر اہم سیاستدان خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ شکست کے نتیجے میں ٹرمپ صدر کا دفتر نہ چھوڑیں۔
البتہ اس کے برعکس ٹرمپ کئی مواقع پر برملا یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ انتخاب کے نتائج کو تسلیم کریں گے۔
صرف سیاسی مخالفین ہی نہیں بلکہ امریکی فوج کے دو ریٹائرڈ فوجی افسران نے بھی ملی کو خط لکھ کر اپنے خدشات کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر ٹرمپ عہدہ نہ چھوڑیں تو فوج اس معاملے میں مداخلت کرے۔
دونوں سابق لیفٹیننٹ کرنل جان نیگل اور پال ینگلنگ نے لکھا کہ اگر آئینی مدت کے خاتمے پر ٹرمپ دفتر چھوڑنے سے انکار کریں تو امریکی فوج انہیں زبردستی دفتر سے ہٹائے اور آپ کو یہ حکم دینا چاہیے۔
مزید پڑھیں: کاغذات نامزدگی جمع کرانے میں 14 سیکنڈز کی تاخیر، کانیے ویسٹ انتخابی دوڑ سے باہر
اس معاملے پر پینٹاگون نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمارے پاس آئین موجود ہے اور ہمارا آئین، جس کا فوج کے تمام افراد حلف اٹھاتے ہیں، وہ سیاسی یا انتخابی تنازعات میں ثالث کی حیثیت سے امریکی فوج کو کسی بھی قسم کا کردار ادا کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ بات انتہائی غیر سنجیدہ خیالات کی عکاسی کرتی ہے اور ہماری جمہوریت اور آئین کے تحت قائم سول ملٹری تعلقات میں اس طرح کے خیالات کو بنیادی طور پر مسترد کردیا گیا ہے۔
امریکی انتخابات میں کئی مرتبہ تنازعات کھڑے ہو چکے ہیں لیکن تاریخ میں کبھی بھی امریکی فوج نے اس معاملے میں مداخلت نہیں کی۔
1876 اور 2000 کے صدارتی انتخابات میں تنازعات کھڑے ہوئے تھے لیکن اس معاملے میں بھی فوج نے کردار ادا نہیں کیا تھا بلکہ اس معاملے کو بھی سویلین حکام نے حل کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سلامتی کونسل میں امریکا ناکام، ایران پر اسلحہ کی پابندی میں توسیع مسترد
امریکی فوج نے تو کبھی بھی انتخابی ماحول یا نتائج میں کردار ادا نہیں کیا لیکن امریکی فوجی جنرل انتخابی عمل کا حصہ بن چکے ہیں۔
1920 میں جنرل لیونارڈ وُڈ نے وردی میں رہتے ہوئے ریپبلیکن امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا تھا لیکن وہ ناکام رہے تھے جبکہ جنرل ون فیلڈ اسکاٹ نے امریکی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے صدر کا انتخاب لڑا تھا اور وہ بھی ناکامی سے دوچار ہوئے تھے۔