بیلاروس کے صدر کے نیٹو پر الزامات، پڑوسی ممالک پر پابندیوں کی دھمکی
بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے نیٹو اتحاد پر ان کے خلاف مظاہرین کو بھڑکانے کا الزام عائد کرتے ہوئے یورپی یونین کے اراکین و پڑوسی ممالک لتھوانیا اور پولینڈ کو جوابی پابندیوں کی دھمکی دے دی۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق لوکاشینکو نے نیٹو پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ روس کے خلاف محاذ کھڑا کرنے کے لیے مظاہرین کی مدد کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'وہ میری حکومت کو ختم کرکے ایک ایسے آدمی کو رکھنا چاہتے ہیں جو دوسرے ممالک سے تعاون کے لیے فوج بھیجنے کا مطالبہ کرے'۔
نیٹو اتحاد اس سے قبل اس طرح کے الزامات مسترد کرچکا ہے۔
مزید پڑھیں:بیلاروس کے انتخابی نتائج مسترد، یورپی یونین کی پابندیوں کی تنبیہ
نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹینبرگ نے رواں ہفتے کہا تھا کہ لوکاشینکو بیرونی فورسز کو مظاہرین کے خلاف کی گئی کارروائیوں کا جواز دینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے سیکڑوں مظاہرین پر تشدد کیا تھا۔
بیلاروس میں 1994 سے برسراقتدار لوکاشینکو نے پڑوسی ممالک لتھوانیا اور پولینڈ کو جواب دینے کی دھمکی دی تھی کیونکہ دونوں ممالک یورپی یونین کو ان کی حکومت پر پابندیاں عائد کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
لتھوانیا نے لوکاشینکو کے سب سے بڑے مخالف سویٹلانا ٹیکھانوسکایا کو بیلاروس میں انتخابات کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کے دوران پناہ دے دی ہے۔
لوکاشینکونے کہا کہ ہم لتھوانیا کی بندرگاہ کے راستے ہونے والی درآمدات ختم کردیں گے اور ان کے مغربی اتحادیوں کو روس اور چین سے تجارت طویل راستوں سے کرنے پر مجبور کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ دیکھتے ہیں پہلے خوفزدہ کون ہوتا ہے، ہم ان پر پابندیاں لگائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:مشرقی بحیرہ روم میں تنازع: یورپی یونین کی ترکی کو پابندیوں کی دھمکی
بیلاروس کے صدر نے کہا کہ حکومت کو احکامات جاری کرچکا ہوں کہ تمام برآمدات کو لتھوانیا کی بندرگارہ سے واپس کریں کیونکہ انہوں نے نقصان پہنچایا ہے اور اب ہم انہیں جواب دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'وہ ہمارے راستوں سے تجارت کرتے ہیں لیکن اب انہیں روس سے تجارت کے لیے بحیرہ اسود یا بالٹک ریجن سے جانا پڑے گا'۔
لتھوانیا کے وزیراعظم سولیوس نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر لوکاشینکو نے اپنی دھمکیوں پر عمل کیا تو اس سے بیلاروس اور اس کے عوام بری طرح متاثر ہوں گے۔
یاد رہے کہ بیلاروس میں 9 اگست کو انتخابات ہوئے تھے جس کے بعد اپوزیشن نے طویل عرصے سے برسراقتدار لوکاشینکو پر دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا اور شدید احتجاج شروع ہوا تھا۔
صدر الیگزینڈر لیوکاشینکو نے 80 فیصد نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ اپوزیشن رہنما نے اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا۔
صدر کے اعلان کے بعد بیلاروس میں شدید احتجاج شروع ہوا تھا جس کو 1991 میں سوویت یونین سے آزادی کے بعد بدترین احتجاج قرار دیا جارہا ہے۔
یورپی یونین نے انتخابات کے متنازع نتائج کو مسترد کرتے ہوئے صدر الیگزینڈر لیوکاشینکو کی حکومت پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی تھی۔
یورپی یونین کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے ہنگامی اجلاس کے بعد بتایا تھا کہ ہمارا بلاک بیلاروس کے عوام کے ساتھ ہے، صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی جیت نہ تو شفاف تھی اور نہ ہی آزادانہ انتخاب تھا۔
چارلس مائیکل کا کہنا تھا کہ جلد ہی کشیدگی پھیلانے، دباؤ ڈالنے اور انتخابات میں دھاندلی کے ذمہ دار افراد تک پہنچا جائے گا۔
پابندیوں سے متعلق انہوں نے کہا تھا کہ ان پر یورپی یونین میں سفری پابندی ہوگی اور اثاثے بھی منجمد ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی شفاف تھے اور بین الاقوامی معیار پر بھی پورے نہیں اترتے تھے، بیلاروس کے حکام کی جانب سے پیش کیے گئے انتخابی نتائج کو ہم نہیں مانتے ہیں'۔
بیلاروس کے صدرالیگزینڈر لوکاشینکو 26 برس سے ملک میں حکمرانی کر رہے ہیں لیکن انتخابات کے بعد ہونے والے احتجاج نے حکومت پر ان کی گرفت کمزور کردی ہے۔