ادویات کے بغیر ایک خاتون ایچ آئی وی ایڈز سے صحتیاب ہونے میں کامیاب
ایڈز کا باعث بننے والا مرض ایچ آئی وی لاعلاج سمجھا جاتا ہے اور فی الحال ایک مخصوص طریقہ علاج سے کچھ افراد مکمل صحتیابی پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
مگر 1992 میں ایچ آئی وی کی شکار ہونے والی ایک 66 سالہ خاتون دنیا کی پہلی شخصیت بن گئی ہیں جو اس آٹو امیون بیماری کو بغیر ادویات یا بون میرو ٹرانسپلانٹ کے شکست دینے میں کامیاب ہوگئیں۔
یہ اپنی طرز کا منفرد کیس ہے اور امریکی ریاست کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی خاتون لورین ویلنبرگ پر کافی عرصے سے محققین تحقیق کررہے تھے۔
وہ ایچ آئی وی کے شکار ان 0.5 فیصد مریضوں میں سے ایک تھیں جن کا مدافعتی نظام قدرتی طور پر اینٹی وائرل ادویات کی طرح کام کرتا ہے۔
یعنی مدافعتی نظام نے اس لاعلاج سمجھے جانے والی وائرس کو خود ہی اتنا کمزور کردیا کہ وہ ختم ہوگیا۔
اس حوالے سے اب ایک نیا تحقیقیی مقالہ جریدے جرنل نیچر میں شائع ہوا ہے جس کے مطابق لورین ایچ آئی وی کے مریضوں کے اس انوکھے گروپ کی پہلی شخصیت ہیں جو وائرس کو اپنے جسم سے مکمل طور پر خارج کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔
محققین نے ان کے خون ، آنتوں اور معدے کے ڈیڑھ ارب خلیات کا جائزہ لیا اور وہ سب ایچ آئی وی وائرس ثابت ہوئے۔
یہ ایک بے نظیر کیس ہے جس سے یہ توقع پیدا ہوئی ہے کہ ایسا ایچ آئی وی کے لاکھوں ایسے مریضوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے جو وائرس پر قابو پانے کے لیے اینٹی وائرل ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ علاج بات خود لوگو کا علاج کرتا ہے جو اس خیال کے خلاف ہے کہ ادویات سے اس وائرس کے پھیلاؤ یا شدت کو تو کم کیا جاسکتا ہے مگر مکمل صحتیابی ممکن نہیں۔
لورین کے ساتھ ساتھ ان جیسے 64 افراد پر ریگن انسٹیٹوٹ کی جانب سے تحقیق کی جارہی تھی جو ادویات کے بغیر ہی اپنے ایچ آئی وی کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
لورین سے ہٹ کر باقی 63 افراد نے قدرتی طور پر اپنے ایچ آئی وی کو اس طرح کنٹرول کیا کہ وہ اپنی نقول نہیں بناسکا۔
لورین ایچ آئی وی کے کنٹرول کے منفرد ذریعے کے علاوہ تحقیقی رپورٹس کے لیے تعاون کے باعث بھی شہرت حاصل کرچکی ہیں اور ایچ آئی وی ایڈز کی تحقیق کے شعبے میں وہ ایک مشہور شخصیت ہیں۔
لورین سے قبل 2 افراد ایچ آئی وی سے مکمل صحتیاب قرار دیئے جاچکے ہیں۔
اس سے پہلے 2007 میں ٹموتھی براؤن نامی ایک مریض کو صحتیاب قرار دیا گیا تھا جو خون کے کینسر کے علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ سے گزارا اور ایک دہائی کے بعد بھی وہ اس بیماری سے محفوظ ہے۔
اسی طرح گزشتہ سال ایک اور مریض ایڈ کاسٹیلجو کو شہہ سرخیوں میں اس وقت جگہ ملی جب اسے ایچ آئی وی سے پاک قرار دیا گیا، جس کا اس بیماری کے خلاف جینیاتی مزاحمت رکھنے والے ایک ڈونر کے اسٹیم سیلز کے ذریعے کیا گیا تھا۔
رواں برس برازیل سے تعلق رکھنے والے ایک شخص دنیا کا وہ پہلا فرد قرار پایا تھا جو صرف تجرباتی ادویات کے طریقہ علاج سے ایچ آئی وی سے شفایاب ہوجائے گا۔
اس 34 سالہ شخص میں 2012 میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی اور اسے ایک سال تک اے وی آر ادویات کا استعمال کرایا گیا اور اب وہ پہلا فرد بننے والا ہے جو ناقابل علاج سمجھے جانے والی بیماری کو شکست دینے کے قریب ہے۔
اس شخص کے ساتھ 4 دیگر افراد کو بھی تجرباتی طریقہ علاج کا حصہ بنایا گیا تھا مگر صرف وہی شفا پانے میں کامیاب ہوا۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تجزیے کی ضرورت ہے۔
برازیل سے تعلق رکھنے والا دنیا کے ان 3 افراد میں سے ایک ہے جو اس بیماری سے نجات پانے میں کامیاب ہوئے۔
اس مریض کو پہلے 2 ماہ تک روایتی اے وی آر طریقہ علاج سے گزارا گیا اور پھر ایک کلینیکل ٹرائل کا حصہ بنایا گیا جس میں اسے اے آر ٹی کے ساتھ ساتھ ایچ آئی وی ادویات dolutegravir اور marivoc استعمال کرائی گئیں جبکہ وٹامن بی کی ایک قسم نکوٹینمائیڈ بھی دی گئی۔
نکوٹینمائیڈ متاثرہ خلیات میں وائرس سے لڑنے میں کردار ادا کرنے کے ساتھ انہیں تباہ کرنے پر مجبور کرتی ہے جبکہ مدافعتی نظام کو متحرک کرتی ہے۔
یہ مریض اس طریقہ علاج سے ایک سال تک گزرا اور مارچ 2019 میں ٹرائل سے نکال لیا گیا۔
ا کے بعد سے ہر 3 ہفتے بعد اس کے ٹیسٹ ہوئے اور ایک سال بعد بھی کسی قسم کا وائرل لوڈ یا اینٹی باڈیز کو دیکھا نہیں جاسکا۔
اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے ساؤ پاؤلو یونیورسٹی کے ڈاکٹر ریکارڈو ڈیاز نے بتایا کہ انہوں نے وائرس کو جگانے اور مدافعتی نظام کو بڑھانے کی کوشش کی تھی تاکہ وہ ایک بار میں چھپے ہوئے وائرس کا خاتمہ کردے۔
انہوں نے بتایا 'ہم پورے جسم کی جانچ پڑتال نہیں کرتے، مگر بہترین نتائج میں ہم متاثرہ خلیات دریافت نہیں کرسکے، میرے خیال میں یہ بہت حوصلہ افزا ہے، یہ مریض ممکنہ طور پر صحتیاب ہوچکا ہے، مگر اس کا حتمی فیصلہ کچھ وقت کے بعد ہوگا'۔
اگر یہ نیا تجرباتی طریقہ علاج دیگر مریضوں میں کام کرا تو یہ ایک بہت بڑی پیشرفت ہوگی۔
اس وقت ایچ آئی وی کے مریضوں کو زندگی بھر وائرل لوڈ کو دبانے کے لیے ادویات کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔